آپ کا مزار مبارک مغلیہ دور میں مغل حکمرانوں نے تعمیر کروایا تھا. چونکہ وہ علاقے جو آپکے تجلیوں کے مرکز بن گئے تھے اُن میں کلایہ (اورکزئی ایجنسی)، پاراچنار (کُرم ایجنسی)، ہنگو، ابراہیم زئی، کوہاٹ اور مرَئی وغیرہ شامل ہیں. یہی علاقے صدیوں سے اب تک دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنتے جارہے ہیں اور پاکستان کی آزادی کے بعد جب سے اِن علاقوں میں امن آیا ہے وہاں پورے ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی امن و سکون رہا ہے. لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کا امن اِنہی علاقوں میں امن سے وابستہ ہے جن کے بہت سارے وجوہات ہیں. اِن میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت تک آئے روز جو دہشگرد، دہشتگردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں اُنکے دہشتگردی کے اڈے یہاں قبائلی علاقہ جات جیسے شمالی و جنوبی وزیرستان، سینٹرل کُرم، ملاکنڈ اور اورکزئی ایجنسی میں قائم ہیں.
پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی شیعیانِ حیدرِ کرار علیه السلام موجود ہیں مگر پاراچنار میں اہلِ تشیعُ کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ یعنی پاراچنار (کُرم ایجنسی) پورے ملک میں شیعہ اثنا عشری امامیہ کے نام سے مشہور ہے. اِس وجہ سے پاراچنار میں شیعوں کی اِس قوت کو ختم کرنے کیلئے صدیوں سے وقت کیساتھ ساتھ مختلف حربے استعمال کے گئے اور اب بھی مختلف منصوبے آزمائے جارہے ہیں جبکہ یہاں کے غیور شیعوں کا اِن سازشوں کا کامیابی کیساتھ مقابلہ کرنے اور اپنے زمین، ثقافت اور دین کے دفاع نے اِنھیں پورے ملک میں ایک الگ شناخت بخشی ہے. چونکہ پاراچنار میں جناب سید میر انور شاہ بزرگوار کے تعلیمات نے بہت زیادہ زور پکڑا اور یہاں ہر سال عزاداری مظلومِ کربلا امام حسین علیه السلام میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں پاراچنار اہلِ تشیعُ شیعہ اثنا عشری امامیہ کا مرکز مانا جاتا ہے اور اِن عزاداروں کا مرکزِ ہدایت تیراہ (اورکزئی ایجنسی) میں مزار مبارک جناب سید میر انور شاہ بزرگوار اور کلایہ دربار ہیں جہاں میاں ځامن (میاں بزرگوار کے فرزندان) کے روضے مبارک پورے آب و تاب کیساتھ چمک رہے ہیں. اِس لئے دشمن کے حملے پہلے تیراہ پر پے در پے صدیوں سے جاری رہے.
سن ۱۹۲۷ء میں کلایہ پر دشمنوں نے پُرزور حملہ کیا اور اُس وقت کے حکومت نے انظامی بنیادوں پر لیڑی (جہاں سید میر انور شاہ بزرگوار کا مزار واقع ہے) اور کلایہ کے درمیان جو دریا ہے اُس کو شیعہ اور سُنی کے مابین حد بندی مقرر کی اور ساتھ یہ بھی طے پایا کہ میاں مُریدان (میرانور شاہ سید کے مُرید/عقیدت مند) عزاداری کے جلوسوں کیساتھ زیارت جناب میر انور شاہ سید پر اُنکے مذہبی روایات کے مطابق آئیں گے مگر بد قسمتی سے پاکستان کی آزادی کے بعد بلخصوص جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں فرقہ واریت کی جو بنیاد رکھی اُسکے بعد سے یہاں جنگوں اور لڑائیوں نے مزید شدت اختیار کرلی.
فریقین (شیعہ و سُنی) میں حکومت کا ثالثی کردار:-
سید میرانور شاہ بزرگوار کا مزار مبارک جو کہ صدیوں پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور وقتاً فوقتاً یہاں کے جنگوں اور لڑائیوں نے اِن کے پیروکاروں کو اِس کی مرمت کا کبھی موقع نہیں دیا. بلآخر ٩/١١ سے پہلے یہاں کے مختلف قبائلی عمائدین اور اہلِ تشیعُ کے مابین حکومت کی ثالثی میں ایک جرگہ قائم ہوا جس میں یہ معاہدہ طے پایا کہ زیارت کی مرمت کی جائے گی. اِس معاہدے میں فریقین اور حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ دستخط کئے اور زیارت کی مرمت کا کام جونہی شروع ہوا تو طالبان نے لشکر کشی کرکے پہلے سُنی عمائدین مالکان کے مکانوں کو جلایا (جنہوں نے معاہدے پر دستخط کئے تھے) جبکہ بعد میں زیارت سید میر انور شاہ بزرگوار پر حملہ کردیا.
اہلِ تشیعُ نے اپنے رہبر و پیشواء کی زیارت (جو کہ دشمن کے علاقے میں واقع ہے) کا مکمل دفاع کیا جس میں سینکڑوں مومنین شہید بھی ہوئے. حکومت کی اِس شرط پر جنگ بندی کی گئی جب حکومت نے وعدہ کیا اور اہلِ تشیعُ کی اِس شرط کو مان لیا کہ چودہ دن کے اندر اندر زیارت کی مرمت کا کام پُرامن طریقے سے دوبارہ شروع کیا جاۓ گا لیکن افسوس کہ اب حکومت میں بھی تعصب کی لہر دوڑ چکی ہے اور دہشت گردوں نے پورے ملک میں زیادہ تعداد میں ایک خوفناک شکل اختیار کی ہے اور حکومت کے قابو سے بات نکل گئی ہے تو چودہ دن کی بجاۓ چودہ برس ہونے کو ہے اب تک نہ حکومت اہلِ تشیعُ کو جانے دیتی ہے کہ زیارت کی مرمت کی جاسکے اور نہ خود کوئی کاروائی کرتی ہے.
جبکہ گزشتہ ١٧ برسوں میں تین سے زیادہ مرتبہ اِس زیارت کی تعمیر پر بڑی بڑی جنگیں فریقین کے درمیان ہوئی ہیں. اب جبکہ پورے ملک میں حکومت دہشت گردوں کے سامنے ناکام ہو چکی ہے تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آگے کیا ہوگا؟ جبکہ یہاں کہ حُسینی غیور شیعہ ہر طرف سے دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں.
یہ بھی پڑھیں بادشاہ میرانور شاہ سید کی مختصر تاریخ
نوٹ:- ہم نے تاریخ آپ تک پہنچا دی اب آگے پہنچانا (شیئر کرنا) آپکی ذمہ داری ہےalert-success
مجھے کلام چاہئیں معرفتی کلام اُدرو میں بھی اور فارسی میں بھی وحدت الوجود کے کلام
ReplyDeletePost a Comment