چہار عالم (ناسوت ملکوت جبروت لاہوت) - Alam e Nasoot Malakoot Jabroot Lahoot

عالَم عِلم سے ہے جس کی معنی نشان کے ہیں، عالَم کی ہر شے  الله تعالیٰ  کی ذات پر دلالت کرتی ہے اور زرہ زرہ  الله کے وجُود کی نشانی ہے اِس لئے اِسے عالَم کہا جاتا ہے. تمام مخلُوقات کی ہر جِنس کا الگ الگ عالَم ہے، اٹھارہ ہزار عالَمین ہیں. یہاں ہم چار عالَمین کا ذکر کریں گے. عالَمِ ناسُوت، عالَمِ جبرُوت، عالَمِ ملَکوت اور عالَمِ لاہُوت.

چہار عالم (ناسوت ملکوت جبروت لاہوت) - Alam e Nasoot Malakoot Jabroot or Alam e  Lahoot in urdu


اِنسان کے چار وجُود ہیں:
(١) وجُودِ ناسُوتی یعنی موجودہ جسمانی وجُود، (٢) وجُودِ ملَکوتی، (٣) وجُودِ جبروتی، (٤) وجُودِ لاہُوتی. اِن چاروں میں سے پہلے تینوں وجُودوں کا تعلق عالَمِ خلق سے ہے اور یہ تینوں فانی ہیں. اِن میں صفاتِ الٰہیہ کی معرفت سے فیض یاب ہونے کی اِستعداد اور صلاحیت موجود ہے جبکہ چوتھے وجُود لاہُوتی کا تعلق عالَمِ اَمر سے ہے اور یہ غیر فانی وجُود ہے. اِس میں ذاتِ الٰہیہ کی معرفت سے فیض یاب ہونے کی اِستعداد اور صلاحیت موجود ہے. 

١- عالَمِ ناسوت - Alam e Nasoot

اِس کائنات (جس میں ہم رہ رہے ہیں) کو عالَمِ ناسُوت یا عالَمِ وجُود کہا جاتا ہے. عالَمِ ناسُوت، عالَمِ حیوانات ہے. اِسکا فعل حواسِ خَمسہ سے ہے جیسے کھانا، پینا، سونا، سونگھنا، دیکھنا، سننا.  الله تبارک و تعالیٰ  کی معرفت اور قُرب کے حصُول کیلئے اِن چاروں وجُودوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے الگ الگ نِصاب مقرر کئے گئے ہیں. وجُودِ ناسُوتی کی تعلیم اور تربیت کیلئے عِلمِ شریعت اور اعمالِ شریعت کا نِصاب مقرر ہے جس کی تدریس عُلمائے ظاہر کے ذِمہ ہے. عِلمِ شریعت اور اعمالِ شریعت اِختیار کئے بغیر ظاہری وجُودِ ناسُوتی اپنی سعادت اور کامیابی سے مِحروم رہ جاتا ہے اور آخرت کے ابدی اِنعام (جنتُ الماویٰ) تک نہیں پہنچ پاتا کیونکہ جنتُ الماویٰ اعمالِ شریعت کا ثَمر ہے اور یہ جنت عالَمِ ناسُوت کا پَرتو ہے.

٢- عالَمِ ملکوت - Alam e Malakoot

یہ عالَمِ فرِشتگان ہے، اِسکا فعل تسبیح، تحلیل، قیام، رکوع اور سجود ہے. مرتبہ ملَکیت میں نہ نفس ہے، نہ شیطان، نہ بشری طبائع اور نہ ہی طبعی حاجات ہیں. ملائکہ کا مقصد فقط  الله تبارک و تعالیٰ  کی رضا جوئی ہے. وجُودِ ملَکوتی کی تعلیم و تربیت کا نِصاب عِلمِ طریقت ہے یعنی کسی کامِل پیر/مُرشد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اُسکے احکام اور فرامین پر سچے دل سے عمل کرے. اعمالِ طریقت سے اُس ملَکوتی وجُود کی نمُود ہوتی ہے، جو عالَم ملَکوت میں پہنچ کر صفاتِ الٰہیہ کے ملَکوتی انوار سے فیض یاب ہوکر وہاں کے ثمر (جنتُ النعیم) سے بہرَور ہوتا ہے. اعمالِ طریقت کے بغیر جنتُ النعیم کا حصُول قطعاً ناممکن ہے.

٣- عالَمِ جبروت - Alam e Jabroot

یہ عالَمِ رُوح ہے، اِسکا فعل صِفاتِ حمیدہ ہے جیسے ذوق، شوق، طلب، وجد، سکر، صحو، محو. صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ یہ سیر و سلوک کا تیسرا درجہ ہے. وجُودِ جبرُوتی کی تعلیم اور تربیت کے نِصاب کا نام عِلمِ معرفت اور اعمالِ معرفت ہے. اِس نِصاب کی تدریس بھی کامِل پیر/مُرشد کے ذِمہ ہے. اعمالِ معرفت اِختیار کرکے انسان جبرُوت میں داخل ہوکر الله تعالیٰ کی جبرُوتی صِفات کی معرفت حاصل کرتا ہے اور تقدیرِ الٰہیہ کو سمجھ کر اُسکی موافقت اِختیار کرکے تسلیم و رضا کا رویہ اپناتا ہے جسکا ثَمر (جنتُ الفِردوس) کی صورت میں میسر آتا ہے. عِلمِ معرفت اور اعمالِ معرفت اِختیار کئے بغیر جنتُ الفِردوس تک رسائی قطعاً ناممکن ہے.

٤- عالَمِ لاہوت - Alam e Lahoot

لاہُوت اطراف اور حدود نہیں رکھتا، دن اور رات سے مُنزہ ہے بعض اہلِ تصوف کہتے ہیں کہ لاہوت "لَا هُوَ اِلاَ هُوَ" سے ماخوز ہے یہ عالمِ فنا کا مقام ہے. صوفیائے کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ "لاہوت سالِکین کا سب سے اونچا مقام ہے". آخری رائے کیساتھ اتفاق نہیں ہوسکتا، مقامِ لاہوت میں حضرتِ جبرئیل علیہ السلام کے پَر جل جاتے ہیں اور امامُ الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ صلى الله عليه واله وسلم سے رُک جانے کی اجازت مانگتے ہیں ﴿سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًۭا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا﴾ کی سند صرف رسولِ مقبول صلى الله عليه واله وسلم کو ملا ہے. کائنات میں صرف اور صرف یہی مقدس ہستی ہے جس نے قاب و قوسین کا نظارہ کیا ہے. مقامِ لاہوت سے اگر ایک چنگاری بھی کسی پر آجائے تو وہ معدوم ہوجائے گا.  الله کے جلیلُ القدر نبی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے "لَن تَرانیِ" کے خطاب میں اپنا سر مبارک عاجزی کے گھٹنوں پر رکھ دیا. عالَم لاہوت بے نشان ہے اپنے آپ سے قطع تعلق کرتا ہے، اُسکا تعلق عالَم اَمر سے ہے اور اُسی کو لامکاں بھی کہتے ہیں. وہاں پر نہ گفتگو ہے اور نہ ہی جُستجو.  فرمانِ الٰہی ہے:-
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلْمُنتَهَىٰ (نجم:٤٢) اور یہ کہ بے شک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے

 وجُودِ لاہُوتی کی تعلیم و تربیت کے نِصاب کا نام عِلمِ حقیقت اور اعمالِ حقیقت ہے اور اُسکی تدریس بھی کامِل پیر/مُرشد کے ذِمہ ہے. عِلمِ حقیقت اور اعمالِ حقیقت اِختیار کرنے سے جبرُوتی وجُود کی نفی ہوجاتی ہے اور انسان بشریت کی قید سے نکل کر عالَمِ اَمر کی قُدوسی صورت میں عالَمِ خلق کی تینوں قوسوں (ناسُوت، ملَکوت، جبرُوت) کو عبور کرتا ہوا  الله تعالیٰ  کے مقامِ قُرب یعنی عالَمِ لاہُوت کی جنت میں داخل ہوجاتا ہے جس کے متعلق آنحضرت صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا ہے 

تحقیق الله تعالیٰ کے ہاں ایک ایسی جنت ہے کہ نہ اُس میں حُور و قصُور ہیں اور نہ شہد و دودھ ہے بلکہ اُس میں حق تعالیٰ کی ذات کا دیدار ہے 

اِس مقام پر پہنچ کر مخلص بن جاتا ہے اور نفس و شیطان اور حُبِ دنیا کے شر سے خلاصی پا جاتا ہے کیونکہ عالَمِ لاہُوت میں مخلوق داخل نہیں ہوسکتی اور انسان کے اِسی مرتبہ اِخلاص کے متعلق شیطان نے  الله تبارک و تعالیٰ  کی بارگاہ میں کہا تھا:-

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ ﴿ص ٨٣،٨٢﴾ الٰہی! تیری عزت کی قسم میں ضرور اِن سب کو گمراہ کردونگا سوائے تیرے اُن بندوں کے جو اِن میں سے مخلص ہوجائیں گے. 

اِخلاص کیا ہے؟؟ اِس کے بارے میں امیرِ کائنات علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کا ارشادِ پاک ہے:-

دین کی اِبتدا اُسکی معرِفت ہے اور کمالِ معرِفت اُسکی تصدیق ہے اور کمالِ تصدیق توحید ہے اور کمالِ توحید تنزیہ اِخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اِخلاص یہ ہے کہ اسے صفتوں کی نفی کیجائے کیونکہ ہر صِفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصُوف کی غیر ہے اور ہر موصُوف شاہد ہے کہ وہ صِفت کے علاوہ کوئی چیز ہے (نہجُ البلاغہ خطبہ١) 
حوالہ جات:-  (صحیفہ انوریہ - تدوین سید حسین انوری، مترجم سید مقیل حسین)، (انسانیت اور تکمیل انسانیت ص ١٢ مصنف سید امیر خان نیازی سروری قادری، (مفتاح العاشقین ملفوظات حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی)

alert-successیہ قیمتی معلومات خود تک محدود نہ رکھیں دوسروں کیساتھ شیئر کریں

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post