شہادتِ ثالِثہ یا تیسری گواہی شہادتین کے بعد مولا علی ابنِ ابی طالب علیه السلام کی وِلایت کی گواہی دینے کو کہتے ہیں جِسے عام طور پر أشهَدُ أَنّ عَلیاً ولیُّ الله یا أشهَدُ أَنّ عَلیاً حُجَّةُ اللہ جیسے الفاظ کیساتھ ادا کیا جاتا ہے.
شہادتِ ثالِثہ یعنی شہادتین: توحید اور نبُوت کی گواہی دینے کے بعد مولا علی علیه السلام کی وِلایت کی گواہی دینا ہے. روایات میں آیا ہے کہ جب بھی توحید اور رسالت کی گواہی دی جائے تو ولایتِ علی ابنِ ابیطالب علیه السلام کی گواہی بھی دی جائے ( طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص ۱۵۸؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، دار إحياء التراث العربي، ج ۲۷، ص۱؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۸۷)
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا [الأحزاب:٣٦]
"اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اُس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی اَمر کا کوئی اِختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی جو بھی نا فرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا"
جہاں پر تمام مومنین و مومنات امیر المومنین علی ابنِ ابیطالب علیه السلام کی وِلایت کے قائل ہیں وہاں ایک مسئلہ دورِ حاضر میں شِدت اِختیار کرتا جا رہا ہے اور وہ ہے شہادتِ ثالثہ در تشہُد کا جس کا جی چاہتا ہے بغیر دلیل کے اِسے باطِل قرار دیتا ہے جس کا جی چاہتا ہے اِسے مستحب قرار دیتا ہے. چونکہ مجتہدین سے لیکر عام مسجد کے مولوی تک اِس اَمر میں اِختلاف پایا جاتا ہے اِس لئے ہم قرآن و اقوالِ معصومین علیه السلام کی روشنی میں اِس کے وجُوب کا استدلال کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن میں آپس کے اِختلاف کی صورت میں اپنی اور رسول اللہ اور اولی الامر صاحبان کی طرف رجوع کا حکم دیتا ہے.
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [النساء:٥٩]
"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ واله وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی. پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اُسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کیطرف اور رسول کیطرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے. یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے"
ولایتِ امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیه السلام کی گواہی در تشہد کے حق میں قرآنی آیات:
- دلیل نمبر 1- سورۃ الاسراء آیت نمبر ١١٠
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
"علیؑ کی ولایت کو نماز میں اونچی آواز میں مت کہو لیکن اسے علیؑ سے مت چھپاؤ اسے درمیانی آواز میں پڑھو جب تک میں تمہیں اسے اونچا پڑھنے کی اجازت نہ دے دوں اور یہ اجازت یوم غدیرِ خم دے دی گئی تھی"
- دلیل نمبر 2- سورۃ المعارج، آیت ۳۳ تا ۳۵
وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ، وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ،أُولَٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ
اِس آیت میں واضع طور پر شہادات کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی کم از کم تین شہادتیں دینے والوں سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے.
- دلیل نمبر 3- سورة الروم آیت نمبر ۳۰
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اِس آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فطرت یہ ہے کہ:
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اُس کے رسول ہیں اور علیؑ اُس کے ولی ہیں. قال هو لا إله إلا الله محمد رسول الله علي أمير المؤمنين ولي الله (تفسیرِ قُمی جلد ۲، صفحہ نمبر ۱۵۵) alert-success
قرآنِ کریم میں اور بہت ساری آیات شہادتِ ثالثہ کے اَمر پر دلالت کرتی ہیں لیکن اِختصار کی خاطر فی الحال اِنہی تین آیات کو مضمون میں شامل کیا گیا ہے
شہادتِ ثالثہ کی گواہی معصومینؑ کی آذان و اقامت و تشہد میں!
- دلیل نمبر 4
الدر النظيم میں ابن حاتم العاملي صفحہ نمبر ۴۵۵ پر نقل کرتے ہیں کہ جنابِ سیده فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہہ ظہور کے بعد فرماتی ہیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیرے والد اُس کے رسول ہیں اور علی سیدُ الاوصیاء ہیں اور میری اولاد قبائل کی سردار ہے. یہی عبارت دلائل اِلامامہ کے صفحہ نمبر ۷۸، بہارُ الانوار کی جلد ۱۶، صفحہ نمبر ۸۱، الانوار الساطعة کے صفحہ نمبر ۱۳۰، مؤلف الشيخ غالب السيلاوي اور متعدد شیعہ کُتب میں موجود ہے.
- دلیل نمبر 5
حرعاملی اپنی کتاب اثبات الھداۃ کے صفحہ نمبر ۴۹۷ پر اسرارِ امیرالمومنین کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب مولا علی علیه السلام کا کعبہ میں ظهور ہوا تو سجدہ کیا پھر اپنا سر اٹھا کر آذان و اقامت کہی اور اللہ کی واحدنیت کی گواہی دی، رسول اللہ کی رسالت کی گواہی اور اپنی خلافت و ولایت کی گواہی دی.
- دلیل نمبر 6
شیخِ طوسی اپنی احادیث کی کتاب تهذيب الأحكام کی جلد نمبر۲، صفحہ نمبر ۳۲۶ پر امام جعفر صادق علیه السلام کا قول نقل کرتے ہیں کہ حلبی نے امام سے پوچھا مولا کیا ہم نماز میں آئمہ کے نام لے سکتے ہیں؟ مولا نے فرمایا خوبصورتی سے لو. یہی قولِ معصوم من لایحضر الفقیہ اور متعدد دوسری کُتب میں متفرق رِجال سے موجود ہے (۱۳۳۸) * ۱۹۴ - عنه عن بكر بن محمد الأزدي عن أبان بن عثمان عن الحلبي قال قلت: لأبي عبد الله عليه السلام أسمي الأئمة عليهم السلام في الصلاة؟ قال: اجملهم
- دلیل نمبر 7
علامه سيد احمد مستنبط اپنی مشہور معتبر کتاب القطرہ من بحار میں امام جعفر صادق علیه السلام کا تشہد نقل کرتے ہیں جس میں واضع طور پر امام نے امیرالمومنین علی ابنِ ابیطالب علیه السلام کی گواہی دی ہے (القطرہ جلد نمبر1، صفحہ نمبر 368)
- دلیل نمبر 8
السيد البروجردي نے اپنی کتاب جامع أحاديث الشيعة میں مصباح المتہجد سے اور فقہ الرضا سے تشہد نقل کیا ہے جسکی عِبارت یہ ہے: اشهد انك نعم الرب وأن محمدا نعم الرسول وان علي بن أبي طالب نعم المولى. اِس میں بھی علی کی گواہی موجود ہے. واضع رہے کہ مصباح المتہجد میں تحریف کر دی گئی ہے اور اِس کے نئے نسخُوں میں تشہد کو تبدیل کر دیا گیا ہے.
- دلیل نمبر 9
فروعِ کافی میں امام محمد باقر علیه السلام سے روایت کی گئی ہے کہ کسی نے مولا سے پوچھا کہ تشہد میں کیا پڑھوں تو امام نے جواب دیا پڑھو جو اِحسن ہو کیونکہ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے. قلت لابی جعفر علیه السلام أی شیء أقول فی التشهد و القنوت؟ قال قل بأحسن ما علمت فإنه لو كان موقناً لهلك الناس.
- دلیل نمبر 10، سورۃ فاطر کی آیت نمبر ۱۰
مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
اِس آیت کی تفسیر میں امام رضا علیه السلام فرماتے ہیں کہ مومن کا کلمہ طیب اور عملِ صالح "لا اله الا الله، محمد رسول الله، علي ولي الله و خليفته حقا، و خلفاؤه خلفاء الله" ہے.
- دلیل نمبر 11
بحار الانوار میں علامہ مجلسی الاحتجاج کی روایت نقل کرتے ہیں امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی لا اله الا الله محمد رسول الله کہے تو اُس کے فوراً بعد علی امیر المومنین ولی الله کہے، معصوم کے اِس حکم سے بھی تشہد میں علیً ولی اللہ کا وجُوب ثابت ہوتا ہے.
اب ہم یہاں اختصارِ تحریر کی خاطر قرآن و معصومین سے مذید دلائل سے استدلال کا خاتمہ کر کے یہاں پر اُن اعتراضات کا جواب دیں گے جنہیں معترضین بنیاد بنا کر علیً ولی اللہ کا استحباب یا پھر نعُوز باللہ اِبطال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
- پہلا اعتراض:- جب تشہد میں علیً ولی اللہ موجود ہے تو آئمہ نے کیوں نہیں پڑھی؟
دوم: سورۃ الصف کی آیت نمبر ۲- ۳
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ, كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
اِن آیات میں اللہ ایمان والوں کو تنبیہ کر رہا ہے کہ وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں، تو کیا آئمہ علیہھم السلام جو لوگوں کوتشہد میں اور دیگر مکامات پر علیً ولی اللہ کی تلقین کرتے رہے لیکن خود نہیں پڑھتے تھے. اگر ایسا مان لیا جائے تو کیا خود آئمہ اِسی آیت کی زد میں نہیں آجاتے؟ یہ آیت اِس پر دلیل ہے کہ ہر امام اپنی نماز میں علیً ولی اللہ کی گواہی دیتے رہے.
سوئم: جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئمہ نے اپنی نماز میں علی کی گواہی نہیں دی کیا وہ خود آئمہ کی ہر نماز کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں جس سے اُنہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آئمہ کی نماز میں ولایتِ امیر المومنین نہیں تھی؟ اگر ایسا ہے تو ایک ہی قولِ معصوم عنایت فرما دیں جس میں معصومین نے ولایتِ امیر المومنین کی نفی کی ہو یا یہ کہا ہو کہ یہ نماز میں مستحب ہے یا پھر اِس کے پڑھنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے.
- دوسرا اعتراض:- چند ایسی روایات کو پیش کیا جاتا ہے جس میں آئمہ معصومین نے شہادتین (یعنی دو شہادتوں) کی تعلیم دی ہے اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر علیً ولی اللہ واجب ہے تو پھر آئمہ علیھم السلام نے اُن روایات میں علیً ولی اللہ کا ذکر کیوں نہیں کیا؟
اِس سوال کا جواب ہم تفصیلاً دینا چاہیں گے تاکہ حق بالکل واضع ہو سکے. کیونکہ اوپر ہم شواہد کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ رسول اللہ کی نماز سے لیکر تمام آئمہ کی نماز میں علیً ولی اللہ شامل رہا ہے تو پھر شہادتین والی روایات بظاھر اُن سے ٹکراتی نظر آتی ہیں لیکن کیونکہ یہ اقوالِ معصومین ہیں جبکہ ایسا ہونا ناممکن ہے.
اول:- جتنی بھی ایسی روایات جن میں علیً ولی اللہ نہیں وارد ہوا تمام کی تمام بحالتِ تقیہ میں بیان کی گئی ہیں کیونکہ معصوم کا یہ فرمان کہ اگر تشہد کو معین کیا جاتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ جہاں پر بھی تشہد میں ولایتِ امیرالمومین کا ذکر نہیں ہے وہاں ہلاکت سے بچنے کیلئے تقیہ کیوجہ سے ایسا فرمان وارد ہوا ہے.
دوم:- معصوم کا یہ قول کہ جب بھی لا اله الا الله محمد الرسول اللہ کہوں وہاں علی امیرالمومنین ولی اللہ ضرور کہو اِس بات پر دلیل ہے کہ وہ تمام اقوال جن میں علیً ولی اللہ وارد نہیں ہوا اُسکی بنیاد تقیہ ہے ورنہ دوسری صورت میں یہ تمام احادیث ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں جو کہ کلامِ امام کیلئے سزاوار نہیں.
سوئم:- شیخ صدوق اپنی کتاب التوحید کے صفحہ نمبر ۲۰ پر رسول اللہ کی حدیث کو نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ "دو طرح کے اسباب ہیں جو شخص لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہوا مرے وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک گردانتا ہوا مرے وہ جہنم میں داخل ہوگا.
۸ - حدثنا أبي رحمه الله، قال: حدثنا سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سيف، عن أخيه علي، عن أبيه سيف بن عميرة، قال: حدثني الحجاج بن أرطاة، قال: حدثني أبو الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه واله وسلم أنه قال: الموجبتان (۲) من مات يشهد أن لاإله إلا الله (وحده لا شريك له) (۳) دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله دخل النار.
اگر معترض حضرات کے استدلال کو مان لیا جائے توماشاء اللہ یہاں پر تو رسالت کی گواہی بھی غائب ہے. اگر رسول اللہ کے قول پر یقین ہے تو پھر کیا ضرورت ہے رسول اللہ کی گواہی دینے کی؟ بس أن لاإله إلا الله کی گواہی دیجئے اور جنت پدھاریئے.
اِسی کتاب کے اِس سے پہلے صفحے پر اِسی سے بظاہر ٹکراتی حدیث موجود ہے. اگر معترضین کے اعتراض کو قبول کیا جائے تو پھر اوپر پیش کی گئی حدیث اور اِس حدیث کا جواب دیں کہ اِن دونوں میں سے کونسا عمل جنت کا ضامن ہے؟
امام جعفر صادق علیه السلام حدیث بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنین کو ایک ضمانت دی ہے راوی کہتے ہیں میں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا اُس نے اِن کیلئے اِس اَمر کی ضمانت دی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور محمد کی نبوت اور علی کی امامت کا اقرار کریں اور جو فرائض ہیں وہ ادا کرتے رہیں تو ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا. الخ
لیجئے اب دوبارہ تین گواہیاں لازم و ملزوم ہوگئیں. یہ اقوال و احادیث ہر گز آپس میں متصادم نہیں لیکن ان سوالات کا جواب تشہد میں علیً ولی اللہ کی گواہی نہ دینے والوں پر لازم ہے alert-info
مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿النحل:۱۰۶﴾
"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اسکے جس پر جبر کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کیلئے بہت بڑا عذاب ہے"
- مفسرین نے اِس آیت کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمارِ یاسر اور اُن کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیا اور اُن کو اظہارِ کفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور اُن کی زوجہ حضرت سُمیہ اس درد ناک عذاب کیوجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمارِ یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا، اُس وقت جب حضرت عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ عمار نے کفر اِختیار کرلیا جب یہ خبر پیغمبرِ اکرم (ص) کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمارِ یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا: خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے، ایمان تو اُس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے.
اِسی اثناء میں جب حضرت عمارِ یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبرِ اکرم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: عمار!تجھ پر کیا گزری ہے؟ تو حضرتِ عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول، میں نے مشرکین کے (جھوٹے) معبودوں کی تعریف کے بدلے نِجات پائی ہے اور آپکی خدمت میں پہنچا ہوں، تو اُس وقت پیغمبرِ اکرم نے عمار کے اشکِ رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو اُن کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا.
اگر معترضین کے اعتراضات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر اِس واقعہ کے پیشِ نظرکیا ہم کسی وقت بھی کفریہ کلمہ ادا کر سکتے ہیں چاہے جان کا خوف ہو یا نہ ہو؟ یقیناً نہیں بلکہ یہ صرف اُسی صورت میں جائز ہوگا جب آپکی جان کو خطره درپیش ہو نہ کہ آپ جب بھی شوقیہ طور پر چاہیں اِس واقعہ کو جواز بنا کر کفریہ کلمات ادا کرنے کو دین و ایمان بنا لیں.
ایک دوسرا تقیہ کا واقعہ علی بن یقطین کا ہے جس میں امام موسیٰ کاظم علیه السلام نے اُنہیں اہلِ سنت والجماعت کے طریقے سے وضو کرنے کی اجازت دی تا کہ ہارون سے اِس کی جان بچ سکے. کیا کوئی شیعہ اِس تقیہ کی حالت میں کیے گئے وضو کو امام کی اجازت سمجھ کر اہلِ تشیع کا وضو قرار دے سکتا ہے؟ اور پھر ساری زندگی اِسی کو حجت مان کر اِسی کو بجا لائے اور یہ سمجھتا رہے کہ مولا کے حکم کے مطابق وضو کر رہا ہوں؟ یقیناً یہ عقل کی کمزوری پر محمول ھوگا.
حاصلِ بحث!
مومنین:- ولایتِ امیرالمومنین کی گواہی قبل از اِسلام شروع ہوئی جو کہ ہمارے آئمه معصومین سے ثابت ہے. ثبوت کیلئے ہم نے مولا علی کے ظہور کے فوراً بعد کی اقامت و آذان پیش کی اور جنابِ سیده فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہ کی اُنکے ظہور کے بعد کی شہادات بھی پیش کیں نیز ہم نے قرآن کی آیات اور اقوالِ معصومین سے ثابت کیا کہ تشہد میں علیً ولی اللہ خود رسول اللہ کی نماز سے لیکر تمام آئمہ کی نماز میں رہا ہے اور آئمہ کے ولایتِ امیر المومنین کے در تشہد کے احکامات بھی دکھائے اور اعتراضات کرنے والوں کے اعتراضات کو بھی علم و عقل سے رد کیا. اہلِ تشیع کی کسی ایک پھٹی پرانی کتاب میں بھی موجود نہیں ہے کہ کہیں پر بھی معصومین نے شہادتِ ثالثہ سے منع کیا ہو بلکہ اِس کا وجوب آیاتِ قرآنی سے ثابت ہوتا ہے. نتیجہ یہ ہے کہ اگر جان کو خطرہ نہ ہو جو کہ آج کل ہر گز نہیں ہے اور وہ مومنین جو خصوصی طور پر ایران اور دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہیں خصوصاً یورپ و امریکہ جہاں اُن کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ خطرہ تو پاکستان میں بھی نہیں ہے آج تک نہیں سنا کہ کسی نے صرف تشہد میں علیً ولی اللہ پڑھنے کیوجہ سے کسی کو قتل کر دیا ہو. اُن کیلئے نماز میں علیً ولی اللہ کی گواہی واجب ہے.
تحریر علی داور
Post a Comment