حضرت سَخی سُلطان باھو رح فرماتے ہیں:- مرشِد بھی دو قِسم کے هوتے ہیں. ایک صاحبِ نظر اور دوسرا صاحبِ زر. مرشدِ فصلی سالی (مرشدِ ناقص) اور مرشدِ وِصلی لازوالی (مرشدِ کامل) - عینُ الفَقر
مرشِد درخت کیطرح ہوتا ہے جو موسم کی سردی اور گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے زیر سایہ بیٹھنے والوں کو سکون اور آرام فراهم کرتا ہے. مرشِد کو دین کا دوست اور دُنیا کا دشمن ہونا چاہئے جبکہ طالبِ مولا کو صاحبِ یقین ہونا چاہئے جو مرشِد پر مال اور جان قُربان کرنے سے ہرگِز دریغ نہ کرے. مرشِد کو نبیُ اللہ کی مِثل ہونا چاہئے اور طالبِ مولا کو ولیُ اللہ کی مِثل ہونا چاہئے (عینُ الفَقر)
مرشِد طبیب کیطرح ہے اور طالب مریض کی مِثل ہے. طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اُسے کڑوی اور میٹھی دوائیاں دیتا ہے، مریض کو چاہئے کہ وہ اُنہیں کھائے تاکہ صحتیاب ہوجائے. دانا بن اور جان لے! اللہ تعالیٰ صاحبِ راز (مرشِد کامل) کے سینے میں ہے. (عینُ الفَقر)
مرشدِ کامل کی نشانی!!
alert-success مرشدِ کامل پہلے دن ہی طالبِ مولا کو اِسم اللہ ذات تحریر کر کے دیتا ہے (کلیدِ جَنت)
جان لو کہ بندے اور اللہ کے درمیان کوئی پہاڑ، دیوار یا مِیلوں کی مُسافت نہیں ہے بلکہ بندے اور خُدا کے درمیان پیاز کے پردے جیسا باریک حِجاب ہے. اُس پیاز کے پردے کو تصور اِسم اللہ ذات اور صاحبِ راز مرشدِ کامل کی نِگاہ سے توڑنا بلکل مشکل نہیں. تُو آئے تو دروازہ کُھلا ہے اور اگر نہ آئے تو خُدا بے نیاز ہے. مرشدِ کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کے ہر حال، ہر قول، ہر عمل، ہر فِعل اور اسکی ہر حالت معرفت و قُرب و وصال اور اُسکے خطرات، دلیل اور وِھم و خیال سے باخبر ہو. مرشِد کو ایسا ہوشیار ہونا چاہئے گویا طالب کی گردن پر سوار ہو اور اِس قدر ہوشیار ہو کہ طالب کی ہر بات اور ہر دم سے باخبر ہو. ایسے مرشِد کا باطن آباد ہوتا ہے اور طالب اِسم اللہ ذات کے حاضرات کے ذریعے اُسے ظاہر و باطِن میں حاضر سمجھتا اور اُس پر اِعتقاد رکھتا ہے (کلیدِ التوحیدِ کلاں)
آپ پنجابی ابیات میں مرشِد کے بارے میں فرماتے ہیں:-
ترجمہ: مرشِد کامل کو دھوبی کیطرح ہونا چاہئے جسطرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کو صاف کر دیتا ہے اِسی طرح مُرشِد کاملِ اکمل طالب کو وِرد و وظائف، چِلہ کشی اور رنجِ ریاضت کی مُشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اِسم اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور اپنی نگاہِ کامل سے تزکیہِ نفس کر کے اُسکے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے. اُسے خواہشاتِ دُنیا و نفس سے نِجات دلا کر اور غیرُ اللہ کی مُحبت اسکے دل سے نِکال کر صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی مُحبت اور عِشق میں غرق کر دیتا ہے. مُرشِد تو ایسا ہونا چاہئے جو طالب کے لُوں لُو ں میں بستا ہو.
ماخُوذ از کِتاب شمسُ الفقرا
Post a Comment