وادی تیراہ کا قدیم قبرستان لیڑی
سید حسام الدین (جو کہ جناب سید میرانور شاہ صاحب کے جد امجد ہیں) اپنے بیٹے سید میران (المعروف میر بابا) کے ہمراہ سن 1100ء کے آخر میں مدینہ منورہ سے کربلا معلیٰ (عراق) پھر شام اور ترکی سے ہوتے ہوئے ایران (نیشاپور) آئے. کچھ عرصہ بعد ایران سے افغانستان (گردیز) تشریف لائے یعنی سن 1200ء کے اوائل میں افغانستان کے علاقہ گردیز میں مستقل سکونت اختیار کی اور اپنے بیٹے سید میران کی ایک سید زادی سے شادی کروائی. کچھ عرصہ بعد آپ وفات پا گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، لہٰذا آپ کو گردیز میں ہی دفن کیا گیا.
آپ کے بیٹے سید میران آپ کی وفات کے بعد گردیز میں ہی گزر بسر کرتے رہے. سید میران کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام سید ابجد رکھا گیا. سید میران گردیز میں اپنے حسن سلوک اور خلق عظیم سے لوگوں میں جانے جاتے تھے. لوگ ان کے حسن سلوک سے بہت متاثر تھے. گردیز میں ایک شخص جس کا نام علی کرم خان تھا آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوئے جو آپ کا اور آپ کے بیٹے سید ابجد کا بہت احترام کرتے تھے، علی کرم خان زیادہ تر وقت آپ کے پاس ہی گزارتے تھے. گردیز میں گزر اوقات مشکل ہونے کے بنا پر آپ سن 1300ء کے اوائل میں گردیز سے علاقہ تیراہ (لیڑی) تشریف لے گئے. وہاں جھونپڑی نما خیمے لگا کر گزر بسر کرنے لگے. جب آپ کی وفات ہوگئی تو آپ کے بیٹے سید ابجد نے آپ کو لیڑی کے مقام پر دفن کیا یوں اس
قبرستان میں پہلی قبر آپ (سید میران المعروف میر بابا) کی بنی.
اورکزئی کا نام کیسے پڑا؟
سید میران (میر بابا) کے عقیدت مند علی کرم خان گردیز میں معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے سن 1400ء میں بمع اپنے بیوی اور تین بیٹوں کے تیراہ آکر پہاڑوں کے دامن میں آباد ہوگئے. کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ کا ایک بیٹا کہیں لاپتہ ہوگیا، کافی تلاش اور تگ و دو کرنے کے بعد جب والدین کو ملا تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا پھر جب بھی اسے پکارتے تو اورک زوئے (گمشدہ بیٹا) کے نام سے بلاتے تھے. آہستہ آہستہ پورا قبیلہ آپ کو اورک زوئے کے نام سے پکارنے لگا وقت گرزنے کیساتھ ساتھ اس کا نام اورکزئی پڑ گیا.
علی کرم خان کی وفات کے بعد اورکزئی کے دو بھائی ہندوستان (دکن) چلے گئے جبکہ اورکزئی پہاڑوں کے دامن میں مستقل رہائش پذیر ہوگیا اور اکثر جناب سید ابجد کے پاس آتے اور آپ کے پاس وقت گزارتے، سید موصوف کو بہت قدر کے نگاہ سے دیکھتے تھے.
سید ابجد کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے سید خلیل نے آپ کو دادا (سید میران) کے پہلو میں بمقام لیڑی دفن کردیا اور پھر یہی سلسلہ یونہی چلتا رہا. سید خلیل کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے سید مرتضیٰ نے آپ کو اپنے آبا و اجداد کیساتھ آپ کو دفن کیا، سید مرتضیٰ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے میر کبیر نے آپ کو اپنے خاندانی قبرستان لیڑی میں آپ کو دفن کیا، سید میر کبیر کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے سید میر عاقل شاہ نے آپ کو اپنے والد کے قریب دفن کیا، جب سید میر عاقل شاہ کی وفات ہوئی تو لوگ خاص طور سے اورکزئی قبیلے والے بہت غمزدہ تھے اور فریاد کیا کرتے تھے اور غم و اندو میں چالیس دن تک آپ کے فرزند ارجمند جناب سید میاں داد شاہ کے پاس آتے اور مجلس عزا بپا کرتے تھے.
جناب سید میاں داد شاہ بہت حسن سلوک اور خلق عظیم کے مالک اور صاحب کرامت شخص تھے. ایک بار آپ نے خواب میں امام علی رضا علیہ السلام کو دیکھا، امام عالی مقام نے آپ کو بشارت دی کہ میں نے اپنے جد مولا علی علیہ السلام سے آپ کیلئے عرض کی، آپ کا ایک فرزند دنیا میں ظہور فرمائے گا جو کہ میرا مرید خاص ہوگا. میں نے ان کا اسم سید میرانور شاہ رکھا ہے، بحکم قادر مطلق وہ صاحبِ کرامت اور مرشدِ کامل ہوگا. جس کسی نے ان سے تلقین لی وہ بغیر کسی رکاوٹ کے میرے پاس پہنچے گا.
امام علیہ السلام نے آپ کو یہ بھی فرمایا کہ آپ کی وفات پر آپ کا فرزند (سید میرانور شاہ) میرے ضریح پر موجود ہوگا. جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو آپ کے گھر والوں نے آپ کو فرزند کی خوشخبری دی تو آپ فوراً سجدہ الہی میں گر گئے اور شکر ادا کیا.
تحریر: مومن علی جلال (بڈاخیل)
سکنہ بغکی، کرم ایجنسی پاراچنار
Post a Comment