Munazra Mir shah or badshah Mir Anwar shah syed

میر شاہ کا جناب سید میر انور شاہ ؒ  کیساتھ مناظرہ- ایک واقعہ ہمیں نسل در نسل اِس طرح پہنچا ہے کہ ایک دن حضرت سید میر انور شاہ اعلیٰ الله مقامہ کُرم ایجنسی کے "گوساڑ" گاؤں میں چِنار کے درخت کے نیچے آرام کیلئے بیٹھ گئے معتقدین بھی ہمراہ تھے. اُس درخت کے نزدیک کھیتوں میں شور و غوغا شروع ہوا، سید بزرگوار ؒ  نے ایک آدمی کو بھیجا تاکہ وہاں دیکھ سکے کہ کیا ہوا ہے اور کیوں رونے کی آوازیں آرہی ہیں؟ 

میر شاہ کا جناب سید میر انور شاہ کیساتھ مناظرہ - Manazra Badshah Mir Anwar Syed


وہ آدمی ایک لڑکے کو لے آیا جب سید بزرگوار نے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا کہ میں اسکول کا ایک طالب علم ہوں مجھے سبق یاد نہیں ہوتا اور استاد ہمیشہ مجھے مارتا ہے، پٹائی کے ڈر سے میں یہاں کھیت میں چھپا ہوا تھا آپ کے آنے سے مجھے لگا کہ استاد نے مجھے پکڑنے اور مارنے کیلئے لڑکے بھیجے ہیں. سید موصوف کو لڑکے کی حالت پر ترس آیا اُس کے سر پر شفقت اور مرحمت کا ہاتھ پھیرا، اپنا لعابِ دھن اُس کے منہ میں دیا، دعا دی اور اسکول کی طرف تسلی کیساتھ رخصت کیا. لڑکے کی قسمت بدل گئی اساتذہ جو درس دیتے اُسی وقت اُسے یاد ہوتا تھا اور اُس پر مزید انکشافات بھی ہوگئے، قوتِ حافظہ حد سے زیادہ تیز ہوگئی ایک سال کا نصاب بہت کم عرصے میں ختم کیا اور حرف بہ حرف یاد بھی تھا. اساتذہ اُس کے ذہن کی تیزی پر حیران تھے، بہت کم عمر میں علم و دانش کے اونچے مرتبے پر فائز ہوگئے. پرندوں کی بولی بھی سمجھتے تھے، اِس طرح وہ لوگوں کے توجہ کا مرکز بن گئے- یہ عالم سید میر شاہ تھے جو مشہور و معروف سید لالا گل بابا کے پوتے تھے. کُرم ایجنسی کے "رمکی" گاؤں میں رہائش پذیر تھے بہت سے جائیداد کے مالک تھے.

سید میر انور شاہ ؒ  نے جب کرُم ایجنسی آنا جانا شروع کیا تو معتقدین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی، بہت سال گزر گئے اُس زمانے میں سادات کے بڑے بڑے گھرانے کُرم ایجنسی میں موجود تھے- بعض گھرانوں کا جناب سید میر انور شاہ ؒ  کیساتھ حسد پیدا ہوگیا، مخالفین نے سید میر انور شاہ ؒ  اور اُن کے مُریدوں کی مخالفت پر کمر باندھ لی- پہلے یہ فیصلہ کیا کہ سید میر انور شاہ ؒ  کیساتھ عِلمی بحث کیجائے، اُس کیلئے میر شاہ کو نامزد کیا گیا جو کہ جوان ہی تھے. بحث و مباحثے کیلئے سید فخرِ عالم بابا ؒ  کی زیارت کا انتخاب کیا گیا، ایک طرف بہت بڑا اجتماع تھا جس میں چُنے ہوئے دانشور تھے اور دوسری طرف ایک درویش کیساتھ چند پھٹے پرانے کپڑوں میں عاجز فقیر مُرید تھے. بڑے گروہ والے اِس امید کیساتھ آئے تھے کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے اور دوسرے گروہ کو شکست و خجالت کا سامنا کرنا پڑجائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کرُم ایجنسی سے بند ہو جائیں گے. میر شاہ کیساتھ اور اہلِ علم بھی مدد کیلئے موجود تھے، میر شاہ اپنی کتابیں خچر پر لائے تھے. جناب سید میر انور شاہ ؒ  کیساتھ ایک کتاب بھی نہیں تھی. 

میرشاہ کا سید میرانور شاہ کیساتھ مناظرہ

سید میر انور شاہ ؒ  اور میر شاہ جب آمنے سامنے بیٹھ گئے تو میر شاہ نے پانی سے بھرا ایک جام سید میر انور شاہ ؒ  کے سامنے پیش کیا، جناب سید میر انور شاہ ؒ  نے گلاب کا ایک پھول اُس جام میں رکھ دیا. میر شاہ کا پانی سے بھرا جام پیش کرنا اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کُرم ایجنسی سادات سے اور بزرگوں سے اِس طرح بھری ہے جس طرح یہ جام پانی سے بھرا ہوا ہے اور آپکی جگہ اِس میں نہیں ہے. جواب میں سید میر انور شاہ ؒ  نے گلاب کا پھول رکھ کر بتا دیا کہ "میں سارے سادات کا پھول ہوں یعنی سردار ہوں". میر شاہ نے دقیق اور مشکل مسائل و سوالات کی فہرست سنائی، اُسکا اندازِ بیان سخت کرخت اور متکبرانہ تھا- جناب سید میر انور شاہ ؒ  نے میر شاہ کے اِس کرخت لہجے کے جواب میں فرمایا کہ 

اے میر شاہ ذرا اُس وقت کو یاد کرو جب آپ نالائق تھے سبق یاد نہیں کرسکتے تھے اساتذہ آپ کو مارتے تھے ایک دن چِنار کے درخت کے نزدیک کھیت میں چُھپ گئے تھے کسی کے آنے اور چِنار کے درخت کے نیچے بیٹھنے سے آپ نے چیخنا شروع کیا تھا پھر ایک آدمی آپکو لے آیا اور آپ نے اپنی کمزوری اور کُند ذہنی کا اظہار کیا اُس نے آپکو دعا دی اور اُسی دن سے خدا نے آپ کے ذہن کو تیز کیا ہر چیز آپکو یاد ہوتی تھی سید میر انور شاہ ؒ  کے اِس کلام کو سننے سے میر شاہ کا متکبرانہ انداز عاجزی اور انکساری میں تبدیل ہوگیا اور عِلمی سمجھ اور قابلیت خاک میں مل گئی

یہاں مولائے متقیان جناب علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کا وہ قول جس پر دنیا کے تمام دانشوروں کی کتابیں قربان ہوں، آپکے پیشِ خدمت ہے:-

علم تین بالشت ہے جو پہلی بالشت تک پہنچا متکبر ہوگیا اور دعویٰ کرنے لگا اور جو دوسری بالشت تک پہنچا متواضع ہوگیا اور اپنے آپ کو ذلیل سمجھنے لگا اور جو تیسری بالشت تک پہنچا فقر اختیار کیا اور فنا ہوگیا اور اُس کو اِس بات کا علم ہوا کہ وہ کچھ نہیں جانتا

میر شاہ عاجزی اور نافہمی کے مقام پر بیٹھے جمالِ انوری کو حیرت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے بچپن کی یادیں تازہ ہو گئی تھیں، برسوں پہلے دیکھی نشانیوں کو پہچان گئے بدن کانپنے لگا اور کہہ رہے تھے "جس کو سید کی طلب ہو وہ یہی ہیں، جس کو تلاشِ رہبر ہو وہ یہی ہیں، اگر کسی کا مقصد دلبر تک پہنچنا ہو تو وہ یہی ہیں" یہ سید بھی ہیں، رہبر بھی اور دلبر بھی- جناب میر انور شاہ ؒ  نے آہستہ سے فرمایا:- 

کتابونه به د ٹول په وینو رنگ شی که درته کڑم په جبین باندے خالُونه 

جناب سید میر انور شاہ ؒ  نے مزید فرمایا "آپ نے جو سوالات اور مسئلے میرے سامنے بیان کیے ہیں اُنکے جوابات آپکی فلاں کتاب اور فلاں فلاں صفحے پر موجود ہیں" پھر اُنکے جوابات تفصیل کیساتھ بیان کیے اور یہ ارشاد بھی فرمایا کہ 
اے میر شاہ جس مقام اور در پر آپ پہنچے ہیں اُس دروازے کے تالے کی کنجیاں میرے پاس ہیں 
یہ عظیم اجتماع حیرانی و پریشانی کے عالم میں تھا- اپنے جیت اور کامیابی کی خوشی منانے والے غم اور ندامت میں ڈوب 
گئے. میر شاہ نے لرزہ کی حالت میں سید میر انور شاہ ؒ  کے دامن کو تھاما اور اپنی گستاخی کی معافی مانگی اور اُس وقت تک دامن کو نہیں چھوڑا، جب تک کہ گوہرِ مراد کو حاصل نہ کیا یعنی سید میر انور شاہ ؒ  سے تلقین لی اور اُنکے مُرید بن گئے. اِس عظیم واقعے کے سبب لوگوں کے ذہنوں میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوگیا جس کو بھی اِس واقعے کی خبر ہوجاتی تو اُس پر اِس کا اثر ہوتا، انصاف بیں لوگوں کے دلوں میں سید میر انور شاہ ؒ  کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ گئی اور کج فہم اور متعصب لوگوں کے دلوں میں دشمنی کی آگ مزید بھڑک اُٹھی.


اِس کے نتیجے میں میر شاہ بابا کو "لڈو" زمین کے کھیتوں میں مہورے گاؤں کے سادات نے قتل کیا اور سر تن سے جدا ک میر شاہ بابا کو سلطان گاؤں کے "لوۓ لیارے" کے کنارے سپُردِ خاک کیا، دوسری طرف جناب سید میر انور شاہ ؒ  کے مُرید جو گِنے چُنے افراد تھے اُن پر مصیبتوں اور تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور اُنکی مشکلات میں اضافہ ہوگیا.
(حوالہ کتاب: صحیفہ انوریہ، مصنف سید حسین انوری)

alert-successنوٹ: ہم نے تاریخ آپ تک پہنچا کر اپنا حق ادا کر دیا، اب آگے پہنچانا (شیئر کرنا) آپ کی ذمہ داری ہے
 

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post