صبا ورځ د عاشورا دے - انور به راشی ارت گریوان پورته لاسُونه
یہ رواج سید میر انور شاہ ؒ کے خاندان میں بہت عرصے تک قائم رہا آج کل متروک ہوچکا ہے. ابھی بھی سادات کفن کا ٹکڑا گلے میں ڈالتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کے گلے میں کفن کا ٹکڑا ڈالنا حضرت امام حسین علیہ السلام کے شیرخوار فرزند شہزادہ علی اصغر کی مناسبت سے ہے. سید میر انور شاہ ؒ کے گاؤں (کلایہ) میں دسویں محرم کی صبح کو جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو گاؤں کے معززین گھر گھر جاتے ہیں جِسے "درویزہ" کہتے ہیں. اِس گروہ کے آگے حضرت عباس علمدار کا عَلم ہوتا ہے جو ایک نیک اور متقی شخص نے اُٹھایا ہوا ہوتا ہے اور پیچھے پیچھے بہت دل سوز اور پُردرد ساز بجایا جاتا ہے، اِس گروہ کا ہر آدمی ننگے سر، اپنے سر میں خاک ڈالے ہوئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری کیے ہوئے ہوتا ہے. ہر ایک عشقِ حسینی میں ڈوبا ہوتا ہے کربلا کی دسویں محرم کا نقشہ اُن کے دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے اور ہر آدمی غم کا مجسمہ ہوتا ہے. یہ "درویزہ" اُس واقعے کی یاد میں مناتے ہیں جب جنابِ سکینہ بنتِ حسین علیہ السلام نے چھوٹے بچوں کو جمع کیا، مولا حسین علیہ السلام اور اُن کے اعوان و انصار کے خیموں کی طرف پانی کی تلاش میں وہ بچے پھرتے تھے. ہر گھر حسبِ توفیق عَلمِ عباس کو نذرانہ دیتا ہے اِس کے علاوہ گندم کا آٹا اور سالن مصالحہ بھی دیتے ہیں، پھر اِس آٹے اور مصالحے سے جو مرچوں کا ہوتا ہے دونوں کو ملا کر ترُش روٹیاں پکاتے ہیں اور گاؤں کے لوگ اُسے تبرک کے طورپر کھاتے ہیں.
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا محبّت بھری چاہت کیساتھ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا
الله کی پہچان پیار، محبّت اور خواہش کیساتھ ہوتی ہے. مخصوص ہستیوں کے علاوہ کوئی بھی خدا کو نہیں پہچان سکتا. الٰہی اثرات کی پہچان بھی بہت بڑا کمال ہے. یہ کمال اُن ہستیوں کو نصیب ہوتا ہے جو عشق کے میدان کے شہسوار ہوں. ملنگی خاندان کے تین افراد ہیں (١) وصل (٢) ہجر (٣) حُسن- اِن افراد کا آپس میں باتیں کرنے کا ذریعہ ساز ہے. وصل میں ادب ہوتا ہے اور خدمت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے. پروانے کی طرح خود کو آگ میں جلانا ہوتا ہے. ہجر میں آنسو بہانا اور ٹھنڈی آہیں بھرنا ہوتا ہے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیابانوں میں دلبر کی تلاش میں پھرتے ہیں. کائنات کی بقا عشق کے اُصولوں وصل اور ہجر پر قائم ہے، عشق ہمیشہ قربانی چاہتا ہے.
ارشاد ربُ العِزت ہے:-
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ ﴿۹:۲﴾ مومن صرف وہ لوگ ہیں جب الله کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دل (اُسکی ہیبت اور جلال سے) دہل جاتے ہیں
امیر المومنین امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے:--
انْدَمَجْتُ عَلَى مَكْنُونِ عِلْم لَوْ بُحْتُ بِهِ لاَضْطَرَبْتُمُ اضْطِرَابَ الاْرْشِيَةِ في الطَّوِيِّ البَعِيدَةِ "میرے سینے میں ایک ایسا علم خفی موجود ہے اگر اُسے ظاہر کردوں تو تم اُسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو گے جس طرح گہرے کنوؤں کی رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں" نہجُ البلاغہ خطبہ ۵ ترجمہ مفتی جعفر حسینارشادِ خداوندی اور قولِ مولائے کائنات علیُ المرتضیٰ کے مطابق لرزنا کانپنا مومنوں اور صاحبانِ سِر کی ایک نشانی ہے لیکن اِس طرح کا لرزنا الله کی صفتِ قہاریت کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دلبر کے دیدار کے شوق اور بیقراری کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ الله تعالیٰ نے اِس کے سبب بہت سے مواقع پر حق اور باطل کو عیاں کیا ہے اِس کے صرف دو واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
١- نمُرود نے بہت زیادہ مقدار میں خشک لکڑیاں جمع کی تھیں اُنہیں آگ لگائی اُنکی گرمی اور تپش اتنی زیادہ تھی کہ بہت زیادہ فاصلے پر بھی کوئی آگ کے قریب نہیں جاسکتا تھا. حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق کے زریعے آگ میں ڈالا لیکن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے کوئی گزند نہیں پہنچایا.
٢- حضرت موسیٰ کلیمُ الله دنیا میں تشریف لے آئے ایک جاسوس نے فرعون کو اُنکی پیدائش کی خبر دی، فرعون نے تفتیش کیلئے ایک آدمی کو بھیجا جب وہ آدمی حضرتِ موسیٰ کے گھر داخل ہورہا تھا تو حضرتِ موسیٰ کی ماں نے اُسے تندور میں رکھا اور اوپر سے لکڑیاں ڈال دیں تاکہ نظر نہ آئے، اِسی اثنا میں کنیز آگئی اور لاعلمی کی بنیاد پر تندور میں اور لکڑیاں بھی ڈال دیں اور اُنہیں آگ لگا دی روٹیاں پکانے کے واسطے، جب تفتیشی واپس چلا گیا تو مادرِ موسیٰ بہت جلدی کیساتھ آگئیں اور چیخنا چلانا شروع کیا کہ تندور کو آگ کس نے لگائی ہے؟ اُس میں میرا بیٹا تھا، کنیز نے کہا کہ میں نے آگ روشن کی تھی اسلیے کہ مجھے معلوم نہیں تھا. حضرتِ موسیٰ کی ماں پریشانی کی حالت میں تندور کی طرف گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ اُن کا فرزند صحیح سلامت ہے اور انگاروں کیساتھ کھیل رہا ہے.
ملنگوں پر جب جذب اور عشق کی کیفیت آجائے تو اُن کے بدن درخت کے پتوں کی طرح کانپتے ہیں اور ایسی حالت میں انگاروں کو منہ میں رکھتے ہیں جب ایک انگارے کی تپش ختم ہو جائے پھر دوسرے کو منہ میں رکھتے ہیں، ملنگ کی زبان، تالُو، دانت اور ہونٹوں کو گرم انگارے کوئی ضر ر نہیں پہنچاتے.
سید میر انور شاہ ؒ نے سادات کی عظمت، فضیلت اور احترام سے عوامُ الناس کو اگاہ کیا. نتیجتاً اُن کے معتقدین سادات کرام کی بہت عزت و احترام کرتے ہیں. مُرید ملاقات کے موقع پر پیار اور محبّت کے اظہار کی وجہ سے سادات کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں اور یہ بات تصور میں بھی نہیں آتی کہ ایک میہ مُرید ایک سید کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرے.
سید میر انور شاہ ؒ نے اپنے مُریدوں کو وجد آمیز ساز کا تحفہ دیا، یہ ساز سیدُ الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور اُنکے اعوان و انصار کے شہادت کے واقعات کو دل و دماغ میں حاضر کرتا ہے اور غم کے جذبات کو زیادہ کرتا ہے، اِس ساز کی وجہ سے جو شہدائے کربلا کے غم میں بجایا جاتا ہے لُطف اور رقت پیدا ہوتی ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام لذتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.
(حوالہ کتاب: صحیفہ انوریہ، مصنف سید حسین انوری)
alert-successنوٹ: ہم نے تاریخ آپ تک پہنچا کر اپنا حق ادا کر دیا، اب آگے پہنچانا (شیئر کرنا) آپ کی ذمہ داری ہے
ماشأاﷲ جار شم ڈیر یو خائستہ تحرير
ReplyDeleteAgha badshah ksy barsy main information dayn. Shukriya
ReplyDeletePost a Comment