Kurram Agency Shia Sunni Conflict - کرم ایجنسی شیعہ سنی تنازعہ

 خیبر پختونخواہ میں شعیہ کمیونٹی بہت جگہوں پر موجود ہے مگر کوہاٹ سے آگے جونہی ہنگو کا علاقہ شروع ہوتا ہے یہاں معاملات بدل جاتے ہیں۔ ہنگو شہر اور اطراف میں بڑی شعیہ آبادیاں ہیں۔ جو کہیں استرزئی تو کہیں طوری قبائل کہلاتے ہیں۔

Kurram Agency Shia Sunni Conflict - کرم ایجنسی شیعہ سنی تنازعہ

کوہاٹ شہر سے آگے جائیں تو شیرکوٹ سپینے وڑی کا علاقہ آتا ہے جو مکمل شعیہ علاقہ ہے یہاں مزارات ہیں تاریخی اہل تشیع قبرستان ہے اس علاقے سے آگے نکل جائیں تو ٹل بازار شروع ہوتا ہے جو کہ سنی علاقہ ہے،  ​ٹل سے آگے کرم کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے - چھپری کا علاقہ جو کہ سنی ایریا ہے۔ چھپری سے آگے جائیں تو علیزئی آتا ہے جو مکمل اہل تشیع آبادی ہے۔

علیزئی، چھپری، مندوری - یہ وہ علاقے ہیں جہاں معاملات شدید رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں ایک دوسرے کو زندہ جلایا جاچکا ہے اسی روڈ پر آگے جائیں تو کرم کا دوسرا بڑا شہر صدہ بازار آتا ہے جو مکمل سنی آبادی ہے۔ صدہ بازار سے آگے نکلیں دریائے کرم کا پل کراس کریں تو بالش خیل کا علاقہ آتا ہے۔ یہ علاقہ عرصہ دراز تک میدانِ جنگ بنا رہا ہے یہاں سنی آبادی تھی جو خالی کردی گئی تھی۔

Kurram Agency Shia Sunni Conflict - کرم ایجنسی شیعہ سنی تنازعہ

بالش خیل سے آگے تقریباً چالیس کلو میٹر اسی سڑک پر اہل تشیع آبادیاں ہیں یہ ایک ہی روڈ ہنگو سے پارا چنار تک جاتی ہے پارا چنار کرم کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے پرانا نام توتکئے ہے یہ علاقہ دیگر علاقوں کی نسبت بہتر ہے اچھے ہسپتال، سکولز کالج اور بڑی مارکیٹیں ہیں۔ پارا چنار شہر کے حددود تری منگل کے آخری سرحدی علاقوں سے لگتے ہیں یہ سرحدی علاقے مقبل، خروٹ، تری منگل کہلاتے ہیں یہ تمام سنی علاقے ہیں۔

جب  بھی کرم میں لڑائی ہوتی ہے تو ہنگو سے پارا چنار جانے والا یہ ایک واحد راستہ بند کردیا جاتا ہے لوگ کئی کئی دنوں تک محصور رہتے ہیں ایسے دن بھی یہاں کے لوگوں نے دیکھے ہیں کہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے رہے۔ علاج کے انتظار میں مریض مر جاتے ہیں، دوائیاں نہیں ملتی دیگر ضروری اشیا  کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ 

ان علاقوں میں بہترین قسم کا سوفٹ اسٹون پایا جاتا ہے نیفرائٹ، جم اسٹون یہ سب وافر مقدار میں موجود ہے جن کی ملکیت کا دعویٰ دونوں قبائل کرتے ہیں طوری قبائل اور دیگر تمام۔ نفرت اس قدر عروج پر ہے کہ دونوں گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کو ویڈیو پیغامات و چیلنج دئے جاتے ہیں اعلانیہ اموات کو فخریہ قبول کرتے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی ہار جیت کا تصور موجود نہیں ہے یہ جنگ بس بدلے کی جنگ ہے نمبروار ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تحریر:- عابد آفریدی

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post