دائم خان اور ظفر خان دو بھائی تھے کُرم ایجنسی کے پیواڑ گاؤں کے رہائشی تھے اور طُوری قوم کے مَلک اور مشران میں سے تھے. قوم کا ان پر بہت زیادہ اعتماد تھا اور یہ قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے تھے. حکمرانِ وقت اُن کے کاموں سے بدظن ہوگئے اُن کو مشاورت کے بہانے پشاور بلوایا جب یہ دونوں مَلک پشاور پہنچ گئے تو وہا اِن کو یرغمال بنایا. دائم خان اور ظفر خان پردیس میں بہت زیادہ مصائب میں مبتلا ہوگئے حیران اور پریشان تھے اور سوچ رہے تھے کہ کیسے ان کے چنگل سے آزاد ہونگے؟
جناب قنبرعلی خان پشاور میں موجود تھے، کسی طریقے سے اِن دونوں کی ملاقات قنبر علی خان سے ہوگئی. قنبر علی خان کو اپنی تکالیف اور مصیبتوں سے آگاہ کیا اور اُنہیں خلاصی کے بارے میں درخواست کی. قنبر علی خان نے کہا کہ میرے مُرشد سید میر انور شاہ ؒ کے دامن کو تھام لو یقیناً خدا وند متعال آپ کی ساری تکلیفیں دور کرے گا کیونکہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں. جناب میر انور شاہ سید ؒ تیراہ اورکزئی ایجنسی کے گاؤں کلایہ میں رہائش پذیر تھے، کلایہ اور پشاور میں دو دن کا فاصلہ تھا یہ دونوں بھائی مایوس ہوگئے اور قنبر علی خان کی بات کو ناقابلِ اعتبار جانا. قنبر علی خان کچھ لمحے خاموش تھے اور آنکھیں بند تھیں پھر اپنی خاموشی کو اِن الفاظ کیساتھ توڑا:-
میں نے اپنے مُرشد سے تمھارے بارے میں پوچھا اُنہوں نے ارشاد کیا کہ کل حکمرانوں کے سامنے اِن کی پیشی ہوگی وہ اِن سے کُرم ایجنسی کے نظم و نسق کے متعلق پوچھیں گے. حکمرانوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے اس طرح کے جوابات دیں انشاءالله اِنکی خلاصی ہوجائے گی"
[افسوس صد افسوس وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سید انور شاہ ؒ کے بتائے گئے وہ الفاظ لوگوں کے حافظے سے محو ہوگئے ہیں] الغرض دوسرے دن دائم خان اور ظفر خان کی پیشی دُرانی حاکم کو ہوئی اِن دونوں نے قنبر علی خان کے بتائے ہوئے طریقے اور الفاظ کیساتھ جوابات دیئے. دُرانی حاکم نے اِنہیں اپنے علاقے میں جانے کی اجازت دی دائم خان اور ظفر خان پشاور سے روانہ ہوگئے.
سید میر انور شاہ ؒ سے ملاقات کیلئے کلایہ آگئے سید موصوف کے قدموں پر اپنے سر رکھ دیئے کچھ دن کلایہ میں رہے اُن کی زندگی میں انقلاب آگیا انوری صُحبت سے فیض حاصل کیا دائم خان اور ظفر خان کے وجُود میں محبّت اور عشق کی آگ بھڑک اُٹھی اُن کے دل انوری پَرتو(جلوہ/جھلک) سے منور ہوگئے. اُن کی قسمت جاگ اُٹھی دونوں بھائیوں نے دربارِ انوری سے بہت کچھ حاصل کیا اور سید بزرگوار سے تلقین پاکر اُن کی مُریدی کا شرف حاصل کیا اور کُرم ایجنسی کی طرف روانہ ہوگئے وہاں پر اُن کے حالات اور طور طریقے تبدیل ہوگئے، ہر وقت اُن کی زبان پر سید میر انور شاہ ؒ کا ذکر جاری رہتا تھا اُن دونوں بھائیوں کی وجہ سے کُرم ایجنسی میں میاں مُریدی کو بہت فروغ ملا. اپنے علاقے میں بعض سادات کیساتھ اُن کے بہت گہرے مراسم تھے وہ مراسم ختم ہونے لگے اور ناراضگی کا رنگ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ یہ رنجش دشمنی میں تبدیل ہوگئی.
جناب مالکِ اشتر، حیدرِ کرار مولا علیُ المرتضیٰ علیہ السلام کی فوج کے سپہ سالار تھے اُنہیں جب زہر دیا گیا اور یہ عظیم جرنیل فوت ہوگئے تو مولائے کائنات علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کو مالکِ اشتر کی جُدائی کا بہت دکھ ہوا اور بہت زیادہ پُرملال ہوئے اور ایک موقع پر اِرشاد فرمایا:-
مالک کی موت پر میں اس طرح غمزدہ ہوگیا جس طرح رسولِ اکرم صلى الله عليه واله وسلم کی وفات پر ہوا تھا دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ مالک کا میرے ساتھ وہ مقام تھا جو مقام میرا رسول الله کیساتھ تھا
جب دائم خان قتل ہوا تو جناب سید میر انور شاہ ؒ بہت زیادہ غمزدہ ہوگئے ایک لمبے مرثیے میں اپنے غم کا اظہار کیا.
حوالہ: (صحیفہ انوریہ تدوین؛ جناب سید حسین انوری)
کلام انور شاہ صاحب پہ زڑہ واردات کیگی
alert-successاس تحریر کو دوسروں کیساتھ لازمی شیئر کریں
Post a Comment