History of Qambar Ali Khan Bazargawar - Dastan e Qambar

جناب سید میر انور شاہ ؒ  اور اُن کے خاص عقیدت مند قنبر علی خان کے حالات سے نا واقفیت کی سب سے بڑی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ اُن کے رہن سہن کی جگہ کلایا (تیراہ اورکزئی ایجنسی کا ایک گاؤں) کئی بار لُوٹ چکی ہے اور جل چکی ہے. سادات کے بیش بہا علمی خزانے نذرِ آتش ہو چکے ہیں.

سید میرانور شاہ اور قنبر علی خان - Syed Mir Anwar Shah or Qamber Ali Khan

سید میرانور شاہ اور قنبر علی خان:-

مشہور و معروف میرزک زیڑان (کُرم ایجنسی) کے پرانے گاؤں کے رہائشی تھے. اُنکے والد کا نام غلام خان تھا. قوم اُنکی بنگش تھی. جناب سید محمود شاہ ؒ  (ابنِ سید مدد شاہ ابنِ سید میرانور شاہ) کے ہم عصر تھے. جناب سید محمود شاہ ؒ  کیساتھ بہت قربت رکھتے تھے، محبّت اور مودت میں بہت مستحکم تھے. ١٩ صفر ١٢٢٨ ہجری میرزک کہتا ہے کہ:-

قنبر علی خان کی جناب سید میر انور شاہ ؒ  کیساتھ بہت زیادہ دشمنی تھی. قنبر علی خان کے دل میں اتنا بغض و عناد تھا کہ جب بھی سید میر انور شاہ ؒ  کے گاؤں (کلایا) کے قریب سے گزرتا تو اپنا منہ چادر میں چھپا لیتا تھا یا پھر لُنگی کے شملے کو اپنی آنکھوں پر ڈالتا تاکہ سید میر انور شاہ ؒ  کے گھر کی دیواروں کو نہ دیکھ سکے اور جب سید میر انور شاہ ؒ  کے حلقہ ارادت میں آجاتا تو پھر بھی اپنے چہرے کو چھپاتا اِس لئے کہ سید محترم کے گھر کی دیواروں کا پردہ ختم نہ ہو جائے. شروع شروع میں قنبر علی خان بہت سرکش اور نا فرمان تھا اُس نے کئی بار جناب سید میر انور شاہ ؒ  کو دھمکیاں دیں، ایک دن قنبر علی خان جناب سید میر انور شاہ ؒ  کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے انور ؒ  شاہی مت کیا کر ایسا مت کر غریب لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو اور انہیں مُرید بنا لیتے ہو. خبردار! میرے خاندان کی طرف مت دیکھنا. سید میر انور شاہ ؒ  نے صبر و تحمل سے جواب دیا کہ اے قنبر علی خان! میں دھوکہ اور فریب نہیں کرتا، میں صراط المستقیم پر چلنے کی دعوت دیتا ہوں اور جناب پیغمبرِ خدا صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ کی شریعت پر چلنے کی تلقین کرتا ہوں، رہی بات مُریدی کی تم بھی اپنی فکر کرلو ایسا نہ ہو کہ تم خود میرے مُرید بن جاؤ. یہ سن کر قنبر علی خان غصے ہو گیا اور کہا بہت اچھے، پچھتانا مت، جواب میں سید میر انور شاہ ؒ  نے فرمایا خیال رکھنا، شرمسار نہ ہوجانا. 

کچھ عرصے کے بعد قنبر علی خان پشاور گیا وہاں اُسکی جائیدادیں تھیں. ایک عظیمُ الشان باغ کا مالک تھا. اِس بار جب قنبر علی خان باغ میں بیٹھ گیا تو چنگ اور رباب کی محفل شروع ہوگئی، عین گرم محفل میں قنبر علی خان کے خیالات و تصورات میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگیا. زندگی کی کشتی فنا کے گرداب میں گرفتار تھی، بطرف ساحلِ مراد چل پڑی قنبر علی خان بیہوش ہوگیا اور کرسی سے گرگیا. ایک تجربہ کار طبیب کو بلوایا گیا. قنبر علی خان جب ہوش میں آیا تو دیکھا کہ طبیب دوا تیار کر رہا ہے نبض دیکھ رہا ہے اور علاج کر رہا ہے. قنبر علی خان نے کہا:-    

څه خبر زما په رنځ نه یے طبيبه
د مرض علاج به څه کوے غریبه
د دیدن رنځور محتاج د طبیب نه دے
څو مژده د وصل نه وی له حبیبه

حق نے اُسکی رہنمائی کی وہ باطل سے روگردان ہوا، خانی اور امیری کو لات مار دی، شان و شوکت کی زندگی کو چھوڑ دیا اور فقیری کی زندگی بسر کرنے لگا. اِس طرح سے بڑی تبدیلی جب خیالات اور تصورات میں آجائے تو اُس کیلئے کسی علت کا ہونا ضروری ہوتا ہے. جناب سید میر انور شاہ ؒ  سرورِ کائنات حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ‎‎ کے روحانی نمائندے اور امیرِ کائنات علی المرتضیٰ عَلَيْهِ ٱلصَّلَوٰةُ وَٱلسَّلَٰمُ کے پوتے، اپنے زمانے کے عارف و کامل تھے. قنبر علی خان کے وجود میں انوری جلوہ کیا اور اُسکے بدن کو اس طرح صاف کیا جیسے ایک شہید کا بدن ہوتا ہے. الغرض قنبر علی خان تیراہ کی طرف چل پڑے، چلنے کی طاقت نہیں تھی کئی بار گرگئے سارے کپڑے خراب ہوگئے. جب تیراہ پہنچ گئے تو حاجیوں کی طرح دھوتی باندھ لی اور اُسی حال میں ننگے سر اور ننگے پاؤں سیدھا سید میر انور شاہ ؒ  کے گاؤں (کلایا) چلے گئے. ایک خان کا اِس انداز میں آنا بہت معنی خیز ہے. 

جناب سید میر انور شاہ ؒ  نے اپنے ایک خدمت گار کو کہا کہ باہر دیکھو ایک قابلِ قدر مہمان آیا ہے اُسے اندر لے آؤ. خدمت گار باہر آیا تو کسی کو نہ پایا، سید بزرگوار ؒ  کو کہا کہ باہر تو کوئی نہیں ہے تھوڑی دیر بعد سید محترم نے دوبارہ ارشاد کیا وہ پھر باہر آیا اور کسی کو نہ دیکھا، اِس لئے کہ قنبر علی خان سید بزرگوار ؒ  کے گھر کے باہر تندور میں بیٹھا ہوا تھا. تندور میں بیٹھنا بھی حکمت سے خالی نہیں ہے. تیسری بار جب سید انور شاہ ؒ  نے اپنے خادم سے مہمان کے اندر لے آنے کے بارے میں کہا تو اس نے باہر آ کر قنبر علی خان کو دیکھا اور حضرت میر انور شاہ سید ؒ  کی خدمت میں لے آیا قنبر علی خان کا بدن لرز رہا تھا، چہرے کا رنگ زرد ہوگیا تھا سید بزرگوار کے قدموں میں گر پڑا پیچھلی گستاخیوں اور نا انصافیوں پر نادم اور شرمندہ تھا سید بزرگوار سے معافی طلب کی اور عرض کیا کہ مجھے اپنی غلامی میں قبول کریں، میں بڑا گنہگار ہوں اور آپ ؒ  زمانے کے پیشوا ہیں اور مخلوق کے رہبر ہیں میرے حال پر نظرِ عنایت کریں، سید بزرگوار ؒ  نے قنبر علی خان کو تسلی دی اور تلقین کا تحفہ دیا.

انوری صحبت سے قنبر علی خان نے فیض لینا شروع کیا ریاضت اور عبادت سید موصوف ؒ  کے زیرِ تربیت شروع کی، ذکر و فکر کے گلستان میں مستغرق ہو گیا. قنبر علی خان نے جب سید میر انور شاہ ؒ  کا دامن تھام لیا تو یہ اُمید پیدا کی کہ اب انشاء الله میں حدِ کمال کو پہنچ جاؤنگا چناچہ کچھ اِس طرح اظہار کیا:- 

په کمال به وراسم د خدائے په حکم
څه مُرید زه په یقین د کامل پیر یم
کامل پیر دے انور شاه صاحب باور کڑه
زه قنبر علی یے ځکه دامنگیر یم


حوالہ جات کتب:-(صحیفہ انوریہ، کلامِ قنبر)
☝️حق بادشاہ میر انور سید دے

alert-infoنوٹ: ہم نے تاریخ آپ تک پہنچا کر اپنا حق ادا کر دیا، اب آگے پہنچانا (شیئر کرنا) آپ کی ذمہ داری ہے

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post