کلام سید میر انور شاہ ؒ (سادات کے خصائل). سرورِ کائنات فخرِ موجودات حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میری اولاد کی چھ نشانیاں ہیں علم، حلم، فقر، سخاوت، شجاعت اور عبادت.
یو حدیث دے له جنابَ - حضرت ویلو له اصحابَشپیگ خُویُونه د سیدانو - صحیح شتا دی له کتابَ
اول عِلم څه عالِم وی - د دين کار کا له ثوابَدویم دا دے څه په خُوئ حلیم وی - رنگ و بُوئ له ګلابَ
دریم فقر یے حاصل وی - ریاضت له بُوترابَڅلورم بُویه سخی وی - اعانت کا له احبابَ
پنځم حق دے څه شجاع وی - دا عطا دے له وهابَبیا شپیگم عابد زاهد وی - فاس انفاس یے له ادابَ
دائمی ذکر یے دوست وی - یاد د خدائے کا بے حسابَمعرفت یے په زڑه نمیس وی - محتاج نه وی له ځوابَ
شریعت کے استوار وی - بیدار کا غافل له خوابَله مذهب مشرف واقف وی - نُور ظاهر سِر له حجابَ
څه په دا صفت موصوف وی - منور دے له آفتابَڅه یے دا خُویُونه نه وی - نور یے خُونه دے خرابَ
د کامل تلقین بهبود دے - فائده نه شی له دوابَڅه اسلام یے په تقلید کڑہ - خبر شه له شېخ و شهابَ
کنعان ترکه له نوح وکڑه - ځکه غرق ڈوب شه له آبَفاضلان لاڑُو جحیم تا - څه به وائے له کذابَ
بے تابی یے په عالم کڑه - زمانه شوه انقلابَد رجعت منکر مُرتد دے - خلاص به نه شی له عتابَ
د حُجت ظهور ظاهر دے - معجزه دے انتخابَمیرانور ؒ حدیث بیان کڑه - عنایت له اولوالبابَ
١- عِلم !!
صاحبانِ عِلم کے متعلق پروردگارِ عالم نے قرآنِ پاک میں اِس طرح ارشاد کیا ہے:
الله تعالیٰ نے خود اِس بات کی گواہی دی کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب فرشتوں اور صاحبانِ علم جو عدل پر قائم ہیں (بھی یہ گواہی دی) کہ عظیم حکمت والے رب کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے (آلِ عمران:١٨)بتحقیق الله کے بندوں میں اُس سے خوف کرنے والے صرف علماء ہیں (فاطر:٢٨)
جناب سید میر انور شاہ ؒ کہتے ہیں کہ وہ دین کا کام صرف ثواب کیلئے کرتا ہو کوئی منفعت اور شہرت اُس کے ذہن میں نہ ہو.
٢- حِلم !!
حِلم کے متعلق مولا علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا ہے
بُردباری اور صبر ہمیشہ دوست ہونگے یہ دونوں بلند ہمت کا نتیجہ ہے
سرورِ کائنات حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ہاتھ اٹھاتے اِس طرح التجا کرتے تھے "خداوندا! عِلم کی وجہ سے مجھے بے نیاز کر دے اور حِلم کی صفت کے بنا پر مجھے زینت عطا فرمائیں"
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ
عِلم ہر آدمی کا مددگار ہے اگر کوئی عِلم نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ حِلم اختیار کرے
جناب سید میر انور شاہ ؒ فرماتے ہیں کہ اولادِ رسول گلاب کے پھول کی طرح نیک صورت ہوتے ہیں، کریھ صورت نہیں ہوتے کہ لوگ اُسے دیکھ کر اُن سے نفرت کا اظہار کریں، اولادِ رسول سے گلاب کی خوشبو کی مانند حسنِ اخلاق کی خوشبو چار سو پھیلی ہوئی ہوتی ہے.
٣- فقر (فقر کے دو اقسام ہیں- فقرِ ممدوح اور فقرِ مذموم) !!
فقرِ ممدوح: جو (مخلوق) آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (الله) کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں وہ الله جو ہر روز نئے شان میں ہے (الرحمن:٢٩)اے بنی آدم تم سب الله کی بارگاہ میں سوالی اور محتاج ہو اور الله بے نیاز اور قابلِ تعریف ہے (فاطر: ١٥)
یہ فقرِ ممدوح وہ تحفہ ہے جس کے متعلق امامُ الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے اِس طرح ارشاد فرمایا ہے "الفقرُ فخری" رسولِ خدا صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ کو اپنے رب کی طرف سے بے شمار اعزازات اور عنایات عطا ہوئے ہیں لیکن فخر صرف فقر پر کیا ہے اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر سارے اعزازات اور مہربانیوں کا منبع ہے. فقر کے متعلق سید میر انور شاہ ؒ نے دوسری جگہ اِس طرح فرمایا:
فقر قناعت گنج مخفی دے - حدیث دا باب حضرت کڑے دے مذکور ڈیر"فقر و قناعت گنج مخفی ہے اِس بارے میں حضرت (محمّد) کی بہت ساری احادیث ہیں"
فقرِ مذموم: یہ وہ فقر ہے جو کمینہ فطرت اور ذیل بنیادوں پر استوار ہوتا ہے خدا اور اُسکے رسول کے احکام کو پسِ پُشت ڈالتے ہیں اپنی خواہشات اور ضروریات پورا کرنے کیلئے ہر قابلِ مذمت طریقہ اختیار کرتے ہیں- اِس فقر کے متعلق کچھ احادیث پیش کرتا ہوں:
"حج اور عمرہ فقر اور گناہوں کو برطرف کرتے ہیں " (تہذیب:٢٩١/٥)
"نیکی اور صدقہ فقر کو دور کرتا ہے" (من لایحضر الفقیہ ج٢)
"مرنا اور قبر میں جانا فقر سے بہتر ہے" (کافی ج٧)
"اے الله میں فقر کی شر سے آپ کی بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں" (تہذیب ج٥)
امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے
اگر ناداری میرے سامنے انسان کی صورت میں آجائے تو میں اُسے قتل کردوں گا
جناب سید میر انور شاہ ؒ کہتے ہیں کہ اولادِ رسول کو اُس فقر سے حصہ ملا ہوتا ہے جس پر پیغمبرِ اکرم نے فخر کیا ہے اور ریاضت انہیں بارگاہِ مُرتضوی سے نصیب ہوتا ہے-
٤- سخاوت !!
سخاوت بہت قیمت گوہر ہے جو شیر کے منہ میں ہے شیر کی منہ سے کسی چیز کا لینا بہت خطرناک کام ہے سخاوت سے اگر بڑھ جائے تو وہ افراط ہے اُسے فضول خرچی کہتے ہیں فضول خرچی کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
اے لوگو فضول خرچی نہ کرو فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان الله تعالیٰ کا سب سے بڑا دشمن ہے
سخاوت سے نیچے حد کو تفریط کہتے ہیں یہ قارون کی خصلت اور عادت ہے جو قابلِ مذمت ہے- الغرض سخاوت افراط و تفریط کا حدِ فاصل مقرر کرنا بہت مشکل کام ہے. حضرت سید میر انور شاہ ؒ کہتے ہیں کہ سخاوت مومنوں پر کرنی چاہیے-
٥- شجاعت !!
شجاعت ایک لاثانی گوہر ہے یہ آبِ حیات ہے جو دنیا کی تاریکی میں حضرتِ خِضر جیسے افراد کو نصیب ہوتا ہے- شجاعت پر عمل پیرا ہونا اتنا مشکل کام ہے جتنا پلِ صراط پر جانا- اِس لیے کہ پلِ صراط بال کی طرح باریک اور الماس سے زیادہ تیز ہے. اِس دنیا میں بہت سے نامور فاتح گزرے ہیں جیسا کہ سکندرِ اعظم، نیپولین، شارلمین، چنگیز خان، ہلاکو خان اور تیمور لنگ وغیرہ اِنہوں نے بے شمار ملک فتح کیے تھے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا تھا لیکن اسلام نے اِن میں سے کسی کو شجاع نہیں کہا ہے- شجاعت کی حد افراط بربریت ہے اور حد تفریط بزدلی ہے بربریت کرنے والوں اور بزدلی دیکھانے والوں کیلئے جہنم کا منہ کھلا ہے اور آوازیں آتی ہیں "ھل من مزید" شجاع وہ ہے جو الله کے منکرین اور رسولِ مقبول کے دشمنوں کیساتھ جہاد کرتا ہے اور اُس میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو- یہ شجاعت کا حُسن ہے شجاع وہ جو اپنے نفس کو مغلوب کرے اپنے دل کو سوائے یادِ الہی کے خالی کرے.
جناب سید میر انور شاہ ؒ فرماتے ہیں کہ شجاعت الله تعالیٰ کی عطا ہے- کتاب معراجِ سعاده میں لکھا ہے: شجاعت کی اصلیت یہ ہے کہ قوتِ عاقلا و قوتِ غضبیہ کو تصرف میں لے لیں یعنی اِن کو کنٹرول کریں تاکہ انسان ہلاک نہ ہو جائے اور ایک لمحہ کیلئے بھی عقل کی اطاعت سے باہر نہ ہوجائے.
٦- عبادت !!
عبادت و زُہد الہی خزانوں میں ایک گوہر ہے جس کے دو حصے بنے ہیں عبادت کے مفہوم پر عوامُ الناس سمجھتے ہیں البتہ زُہد کے متعلق مختصر وضاحت ضروری ہے- امیر المومنین مولا علی علیہ السلام نے فرمایا "سارا زُہد قرآن مجید کے دو کلموں میں ہے"
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دنیا کی ہر چیز جب ضائع ہوجائے تو اُس پر افسوس مت کرو اور جو چیز ہاتھ میں آجائے اُس پر خوشحالی نہ کرو. (الحدید: ٢٣)
علماء زُہد کی تعریف یوں کرتے ہیں "زُہد وہ ہے جس پر دنیوی سارے غم اور خوشی اُس کے دل پر اثر انداز نہ ہو اگر دنیاوی کوئی چیز اُس سے چلی جائے یعنی ضائع ہوجائے تو خفا نہیں ہوتے اور کوئی دنیاوی چیز ہاتھ آجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کرتے"
مولا علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا "جس نے اپنے دل کو ہمیشہ خدا کے ذکر میں مشغول رکھا تو اُسکے ظاہری اور باطنی افعال نیک ہو جائیں گے"
الله تعالیٰ کا دائمی ذکر روح کی غذا اور اصلاح کی کُنجی ہے- معرفت عرفاء کی اصطلاح میں سالکین کی آخری منزل ہے پہلی شریعت دوسری طریقت تیسری حقیقت اور چوتھی منزل معرفت کی ہے، معرفت فنا فی الله کا مقام ہے.
(کتاب حوالہ: صحیفہ انوریہ تدوین: سید حسین انوری مترجم: سید مقیل حسین)
مزید پڑھیں سید میرانور شاہ کا تعارف
Post a Comment