سیدُ الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے سید موصوف اور اُن کی اولاد کی زندگی کے ہر فعل کا احاطہ کیا ہوا ہے. ہر قوم میں شادی کے موقع پے خوشی منائی جاتی ہے بچے، جوان، بزرگ، یار دوست اپنے پرائے مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں. بارات کے دن یہ خوشیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں.
لیکن جناب انور شاہ سید ؒ کے خاندان میں بارات کے دن ایک رسم رائج ہے اُس دن دولہا سید کو پلنگ پر بیٹھاتے ہیں، اُس رسم کو تخت نشینی کہتے ہیں، صاف ستھرا اور خوبصورت پلنگ تیار کرتے ہیں اور اُسکے نیچے گھوڑوں کے پلانوں کو رکھتے ہیں. پلانوں کا رکھنا اُس مقدس منبر کی طرف اشارہ ہے جو غدیرِ خُم کے میدان میں اونٹوں اور گھوڑوں کے پلانوں سے بنایا تھا اور ختم الرسل حضرت محمّد مصطفیٰ صلى الله عليه واله وسلم نے اُس پر کھڑے ہوکر اپنے جانشین (مولا علی) کا اعلان کیا تھا. پلنگ نشینی کا منظر بہت دردناک ہوتا ہے جسے میرا قلم تحریر کا جامہ نہیں پہنا سکتا. دولہا سید پلنگ کے قریب کھڑا ہوتا ہے جناب حضرت قاسم علیہ السلام کی شہادت کا مرثیہ پُردرد طریقے اور رقت آمیز ساز کیساتھ سنایا جاتا ہے ہر ایک دل میں میدانِ کربلا اور شہزادہ قاسم جان کی شہادت کا نقشہ منقش ہوجاتا ہے.
سامعین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں، سانحہ کربلا نے ہر مذہب و ملت کے حساس دلوں کو زخمی کیا ہے. حضرت امام حسین علیہ السلام کے مجالس اور ماتم داری کو صحیح طریقے سے تیراہ اورکزئی ایجنسی، بنگش اور کُرم ایجنسی پاراچنار میں سید میر انور شاہ ؒ نے رائج کیا سید موصوف کی مقدس صُحبت اور توجہ کے باعث بہت سے باکمال مرثیہ گو، قصیدہ گو اور غزل گو شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے ہر فنِ سُخن میں امام حسین علیہ السلام کے غم کو بیان کیا ہے، کچھ کے نام یہ ہیں: قنبرعلی خان، مُلا نظامُ الدین، محمّد یار، ھوَس کربلائی، حسن، سید طاہر شاہ، سید عبدُالله شاہ، سید محسن سید، میر سید عباس جان سید، نوروز اور سید جعفر حسین. جناب سید میر انور شاہ ؒ اپنے جدِ امجد حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں کچھ اِس طرح کا اظہار کرتے ہیں:-
انور ستا په تیغ شهید دے که باور کڑےخوش حرم دے که دا خخ شی بے کفنه
یقین کرو کہ انور شاہ ؒ اگر بے کفن بھی دفن ہوجائے تو وہ تیغ کے ذریعے شہید ہے ان کا دل شاد اور شادماں ہے
سید موصوف نے سفرِ زندگی کو ختم کیا لیکن شہادت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے. جناب سید میر انور شاہ ؒ کے مرثیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؒ پر سانحہ کربلا نے گہرے نقوش چھوڑے تھے (مذکورہ بالا اشعار اُسی کی طرف اشارہ ہے) سید محترم کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد یزید لعین کے نقشِ قدم پر چلنے والے دشمنوں نے سید بزرگوار کی قبرِ مبارک کو کھودا اور اُن کے سر کو تن سے جدا کیا چالیس دن تک اُس کو گاؤں گاؤں پھیرایا اور خوشیاں منائیں، چالیس دن بعد اُس مقدس سر کو ایک بڑھیا کے گھر رکھا گیا سید موصوف کے اہلِ خانہ اور مُرید بہت غم و اَلم میں مبتلا تھے. حزن و ملال کے گرداب میں اور بیکسی کے عالم میں گِھرے ہوئے تھے سُکھ چین اُنکا ختم ہوگیا تھا. جب ایک قبیلے اور قوم کے سربراہ اور روحانی پیشوا کیساتھ اِس طرح کا سلوک کیا جائے تو اُس قوم کے لوگوں کی کیا حالت ہوگی؟ قلم اُن کے غم کی کیفیت کو بیان کرنے سے عاجز ہے.
سید بزرگوار ؒ کے پوتے سید حسین شاہ ؒ جو فقر کے لباس میں ملبُوس تھے ایک دن کلایہ میں اپنے دادا کے دربار میں بیٹھے ہوئے تھے آنسوؤں کو رومال سے پُونچھ لیا، حاضرین سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:-
آپ کے اِس مجمع میں کوئی ایسا شخص ہے جو میرے دادا جان کا سر لے کر آئے؟
تمام لوگوں نے اپنے سر جُھکا لئے اور اوپر نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ یہ بہت مشکل کام تھا اور سرمبارک دشمن کے علاقے میں بہت زیادہ پہرے میں رکھا ہوا تھا. کُرم ایجنسی "قُبادشاہ خیل" گاؤں کا ایک شخص سید میر حسین (المعروف میردادا) اُٹھا اور کہا "اِس کام کیلئے میں حاضر ہوں بس آپ اجازت دے دیں" سید حسین شاہ ؒ نے فرمایا، آپ بیٹھ جائیں آپ کے بیٹے نہیں ہیں اگر آپ مرگئے تو لاوارث ہوجائیں گے. جناب سید حسین شاہ ؒ نے تین بار یہ اظہار مذکورہ الفاظ کیساتھ کیا اور ہر بار سید میر حسین اُٹھتے اور اجازت چاہتے، بِلآخر اِس عظیم اور مشکل کام کو سید میر حسین کے سپُرد کیا. سید میر حسین اہلِ دل، دانا اور رازدار انسان تھے.
سید میر حسین نے ایک کشکول اور ایک کلہاڑی کو ساتھ لیا اور دشمن کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے. اُنہوں نے دشمن کے علاقے میں بہت تلاش و جستجو کے بعد اُس قیمتی گوہر کو ایک بیوہ کے گھر میں موجود پایا وہاں چلے گئے، دقُ الباب کیا وہ عورت باہر آئی اور اُسے ایک روٹی بطورِ خیرات دے دی اور التجا کی کہ میرا صرف ایک بیٹا ہے اور بہت سخت بیمار ہے قریبُ الموت ہے، آپ دعا کریں کہ خدا اُسے صحت و تندرُستی دے. سید میر حسین نے بہت اعتماد اور درویشانہ طریقے سے کہا کہ آپ کے بیٹے کو رحمان و رحیم خدا شفا دے گا لیکن میں بھی ایک حاجت رکھتا ہوں، اُس عورت نے کہا اپنا مدعا بیان کریں، سید میر حسین نے کہا کہ آپ کے گھر میں ایک مقدس سر رکھا ہے وہ مجھے دے دیں، عورت نے اقرار نہیں کیا کہنے لگی میں تو پوری قوم میں ایک غریب اور کمزور عورت ہوں ہر کوئی میرے ساتھ ظلم اور زیادتی کرتا ہے، قوم نے اسلیے سر میرے پاس رکھا ہے کہ میں ناداری اور لاچاری کی وجہ سے جرات نہیں کرسکتی کہ کسی کو دے دوں.
بڑے اور طاقتور گھرانوں کو اِسلیے نہیں دیا کہ اگر وہ سر کسی کو دے بھی دیں تو بھی کوئی اُنہیں سزا نہیں دے سکتے. اگر میں یہ سر آپ کو دے دوں تو قوم کے لوگ میرے بیٹے کو قتل کر دیں گے اور میرے گھر کو جلا دیں گے. سید میر حسین روانہ ہوگئے وہ عورت حیران و پریشان کھڑی رہ گئی. اولاد کی محبّت ہر شے سے زیادہ ہوتی ہے عورت کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں میرا بیٹا مر نہ جائے، اُس درویش کو آواز دی اور واپس بلایا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ سر میں آپکو دوں گی لیکن آپ جب اُس پہاڑی کے دامن میں پہنچ جائیں گے تو میں یہاں چیخنا چِلانا شروع کردوں گی کہ ایک درویش مجھ سے سر لے گیا باقی آپکی اپنی قسمت ہے، اِسی اثناء بسترِ مرگ پر پڑے بیوہ عورت کے بیٹے نے آواز دی اے ماں! فقیر جو کچھ مانگتا ہے اُسے دے دو میرا بدن ہلکا ہوگیا اور بیماری کے اثرات ختم ہورہے ہیں. سید میر حسین نے عورت کو چالیس روپے بھی دیئے، بیوہ عورت نے سید میرانور شاہ ؒ کا مبارک سر، سید میر حسین کے حوالے کر دیا. جب سید میر حسین اُس جگہ پہنچ گئے جو اُنہیں بتائی تھی، عورت نے چیخ و پکار شروع کی اور گریبان کو چاک کیا اور کہنے لگی:- میں تباہ ہوگئی، برباد ہوگئی ایک فقیر آیا تھا مجھ سے سید انور شاہ ؒ کا سر چُرا کر لے گیا. سید میر حسین طےُالارض کے ذریعے اُسی وقت کلایہ پہنچ گئے اور وہ گوہرِ یگانہ جناب سید حسین شاہ ؒ کو دے دیا. سید حسین شاہ ؒ نے اپنے دادا کا مبارک سر کچھ دن اپنے پاس رکھا، اپنے جذبات کا اظہار کیا اور دل کا غبار نکالا.
چونکہ سید میرانور شاہ ؒ کا مزار کلایہ سے دو کلومیٹر دور لیڑی کے مقام پر ہے لہٰذا سید بزرگوار کے سرمبارک کو اُنکے بدن کیساتھ دوبارہ دفنانے کو مناسب نہیں سمجھا اِسلیے کہ یزیدی دشمن پھر کہیں قبرِ مطہر کی بے حرمتی نہ کریں، سید میرانور شاہ ؒ کے ایک پوتے سید محمود شاہ ؒ کی قبر مبارک بھی کلایہ گاؤں کے ایک غیرمحفوظ مقام پر تھی. جناب سید حسین شاہ ؒ اور سید حسن شاہ ؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے بڑے بھائی سید محمود شاہ ؒ کا جسدِ مبارک کلایہ گاؤں کے اندر لانا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ دشمن اُن کیساتھ ایسا سلوک کریں جو ظلم اُنہوں نے سید میرانور شاہ ؒ کیساتھ کیا، الغرض سید محمود شاہ ؒ کی قبر کو کھولا اور اُنکے جسدِ مبارک کو کلایہ دربار میں سپُردِ خاک کیا اور سید میرانور شاہ ؒ کے سر مبارک کو بھی سید محمود شاہ ؒ کے سینے پر رکھ دیا اور وہ گوہر یگانہ ابھی تک سید مذکور کے سینے پر موجود ہے.
معتقدین اور مومنین اس قبر کو دو مرتبہ چومتے ہیں ایک مرتبہ سید میرانور شاہ ؒ کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ سیاحُ الغائب سید محمود شاہ ؒ کی وجہ سے مُرید اور عقیدت مند اپنے عشق و محبّت کا اظہار کرتے ہیں. زندگی کی اِس چلتی کشتی میں یہ معمول کی بات ہے کہ چھوٹے مرتبوں کے مالک اونچے درجوں کے مالک کا عزت و احترام کرتے ہیں اُنکے سامنے عاجزی و اِنکساری کا اظہار کرتے ہیں اور یہی شرافت اور انسانیت کا معیار بھی ہے تاکہ شریفُ النفس انسانوں کا اندازہ لگایا جاسکے، یہ جذبہ اہلِ دل حضرات میں بہت زیادہ ہوتا ہے. اگر کوئی صاحبانِ کمال کے متعلق غیرمہذب الفاظ استعمال کریں اور اُنکے مرتبے اور کمالات میں کمی کرنے کی کوشش کریں تو زمانہ اُنکو بہت کم ظرف مانے گا.
جناب سید میرانور شاہ ؒ کی ذاتی صفات اظہرمِن الشمس ہیں اُن کا علم، زُہد، تقویٰ، کمالات اور کرامات کا مشاہدہ جب لوگوں نے کیا تو مختلف ادوار میں صاحبانِ بصیرت نے اِس پر اظہارِ خیال کیا اگرچہ دو سو سال گزر گئے بہت سے واقعات زہنوں سے نکل گئے ہیں اور بہت سے واقعات کی تحریر زمانے کی عدم توجہی اور عناد کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہے. سید میرانور شاہ ؒ کے متعلق بعض واقعات اور بعض عقیدت مندوں کے تاثُرات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں.
سید میر انور شاہ ؒ کے زمانے میں اورکزئی کے پٹھانوں کے بڑے خان (ملک) خیرُالله تھے اُنکے بارہ بیٹے تھے دو بھائی، بیشمار بھتیجے اور پوتے تھے. پشاور میں بہت زیادہ جائیداد اور عراضی کے مالک تھے. اورکزئی قبیلوں پر حکمرانی کرتے تھے اُنہیں ہر طرح کا آرام و آسائش اور سکون حاصل تھا. تیراہ اورکزئی ایجنسی میں اُن کی رہائش "پخہ کلایہ" میں تھی کلایہ کے گرد بڑی اور مضبوط دیواریں تھیں، یہ گاؤں اپنے زمانے میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا. گاؤں میں ایک اونچا بُرج جیسے پشتو میں "ٹپُو" کہتے ہیں، بھی تھا. خیرُالله سخت مزاج، بےرحم اور ظالم حاکم تھا عوام اُس سے اِس طرح ڈرتی تھی جس طرح ہرن ایک جنگلی درندے سے ڈرتا ہے خود غرضی اور اپنے اوپر گھمنڈ اتنا تھا کہ کوئی اور اُسے نظر نہیں آتا تھا، عوام کی جان اور اُنکا مال محفوظ نہیں تھا. مُلا نظام الدین کی ایک طویل نظم سے کچھ ابیات پیشِ خدمت ہیں:-
خیرالله چو آمد بقلعه فراززمانه در کینه را کرد ساز
خیرُالله جب قلعہ فراز میں آگیا تو معاشرے کو کینہ، حسد اور ظلم سے پُر کردیا.
همه قلعه در خاطر آزادبودتو ګوئ چو شیر خونخوار بود
تمام قلعہ اُس کی وجہ سے کرب و اذیت میں تھا تو لوگ پُکار اُٹھے کہ وہ ایک خونخوار شیر تھا.
بتاراج داده همه خانه هاعمارات شد جمله ویرانه ها
اُن کے تمام گھروں کو مسمار کیا اور بڑی بڑی عمارتوں کو ملیامیٹ کیا.
چون شب رفت خورشید آمد پدیدزهر سوی لشکر فراهم دوید
چناچہ رات کی تاریخی ختم ہوگئی سورج آب و تاب کیساتھ طلوع ہوا اور اپنی کرنوں سے غلاظت اور گندگی کو ختم کیا (مراد یہ ہے کہ جب سید میرانور شاہ آگئے تو اُنہوں نے اِس مظالم کا خاتمہ کیا اور اپنی تعلیمات کی وجہ سے برائیوں کا قلع قمع کیا)
ایک طرف خیرُالله خان کے مظالم تھے جس نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا تھا دوسری طرف سید میرانور شاہ ؒ کے روحانی فیوض و برکات تھے جو عوامُ الناس کیلئے سکون اور اطمینانِ قلب کے باعث تھے. اِس طرح کی متضاد قوتوں اور خصلتوں کا اجتماع ایک جگہ پر محال تھا اِن کا ٹکراؤ اور تصادم یقینی تھا. علاوہ ازیں بہت سے لوگ سیدانور شاہ ؒ کے حلقہ ارادت میں آگئے تھے.
خیرُالله خان نے ارادہ کیا کہ اِس خطرے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سامنے سے ہٹائے جس طرح کہ "ملک طور" نے سید انور شاہ ؒ کے دادا سید میر عاقل شاہ ؒ اور اُنکی بہن کو نمازِ شب کے دوران شہید کیا تھا اور اپنے لیے راہ ہموار کی تھی. خیرُالله نے سید میرانور شاہ ؒ کے گھر پر حملہ کیا بہت سخت لڑائی ہوئی الله تبارک و تعالیٰ نے سید میرانور شاہ ؒ کو محفوظ اور مامون رکھا حملہ کرنے والو کو شکست ہوئی اور اُنہوں نے راہِ فرار اختیار کیا، سید میرانور شاہ ؒ کے مُریدوں اور معتقدین نے بہت قوت کیساتھ پخہ کلایہ پر حملہ کیا اور اُس پر قبضہ حاصل کیا بُرج میں بارہ آدمی بیٹھ گئے جس میں دو سید تھے، خیرُالله کے طرفداروں نے بُرج کے نیچے بڑی مقدار میں بارُود رکھ دیا اور اُسے آگ لگائی بُرج بلکل بنیادوں سے جدا ہوا اور تقریباً سو گز اوپر ہوا میں بلند ہوا اور پھر اپنی جگہ پر آگیا بُرج میں بیٹھے آدمیوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا، یہ کرامت دوست اور دشمن نے دیکھ لی. خیرُالله نے حیرانی و پریشانی میں وہاں سے فرار اختیار کا اور کہا کہ یہ مقابلہ میں نہیں کرسکتا. پخہ کلایہ کی عمارتوں کو ہموار کیا اِس واضح کرامت اور اِس علاقے سے خیرُالله خان کے جانے کی وجہ سے عوام کو جناب سید میرانور شاہ ؒ کی مقدس صحبت میں آنے کا موقع آزادی کیساتھ نصیب ہوگیا.
سارے لوگ دینِ حق کی طرف مائل ہوگئے. سید موصوف کے معتقدین کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی، منی خیل قوم نے پخہ کلایہ کے بدلے میں خانوں کو سلطان زئی کا علاقہ دیا جو کلایہ سے زیادہ زرخیز اور درختوں سے پُر تھا وہ خان فیملی آج تک سلطان زئی کے علاقے میں آباد ہے.
حوالہ کتاب: صحیفہ انوریہ، مصنف سید حسین انوری (مرحوم)
Badshah Mir Anwar Syed Shahadat Waqia
Post a Comment