وادی تیراہ کا علاقہ کلایہ 1927ء کی جنگ (پہلی لڑائی)

 اورکزئی تیراہ کا علاقہ کئی سالوں سے مغل حکومت کے زیر اثر رہا ہے. انگریز قوم نے یہ سوچا کہ ہم تیراہ اور گرد و نواح تا پشاور کسی طرح اپنی گرفت میں لائیں چناچہ انگریزوں نے مختلف مقامات پر مسلمان علماء کو پیسے کا لالچ دے کر انہیں اپنی طرف مائل کرنا شروع کر دیا. سن 1926ء میں انگریز حکومت نے تیراہ کلایہ کے ایک مُلا (اخونزادہ مُلا محمود) کو پیسہ دے کر اکسایا کہ آپ پورے اہلسنت قوم کے لوگوں سے کہیں کہ ہم اہل تشیعوں سے تنگ ہیں لہٰذا ان پر لشکر کشی کرکے انہیں ختم کریں گے، اس طرح تمام شیعہ اس علاقے سے ختم ہو جائیں گے اور فقط اہلسنت عقیدہ رکھنے والے ہی رہ جائیں گے.

کلایہ 1927ء کی جنگ

 اخونزادہ مُلا محمود انگریزوں کے جانسے میں آگیا اور 1926ء میں کرک، وزیرستان، مسعود قبائل، پاڑہ چمکنی اور اورکزئی قوموں میں شیعوں کے خلاف تقاریر کا سلسلہ شروع کیا. ایک سال مسلسل مختلف مقامات پر جار کر جلسے جلوس کرتا رہا، آخر کار 93 ہزار لوگوں کا لشکر تیار کر کے سن 1927ء میں کلایہ پر حملہ کر کہ چڑھائی کردی، حملے کے نتیجے میں کلایہ کے علاقے کو تباہ کر دیا جس میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، مکانات جلا کر خاکستر کر دیے گئے. بچے کچے لوگوں نے اپنی جان بچا کر مختلف علاقوں کی طرف نقل مکانی کر کے (جس میں کوہاٹ، ہنگو، استرزئی، رائیسسان، لودھی خیل، کچئی، ابراہیم زئی اور کرم ایجنسی شامل ہیں) وہاں سکونت اختیار کرلی.

سن 1927 سے 1934ء تک یہ علاقہ (لیڑی) غیر آباد رہا، فریقین میں سے koi یہاں آباد نہ ہوا لیکن شیعہ قوم کو زیارت مقدسہ جانے کی پوری آزادی تھی بلکہ اہلسنت حضرات بھی اولیاء الله کے مزارات پر فاتحہ خوانی کیلئے آتے تھے کیونکہ وہ بھی ان بزرگوں کو مقدس ہستیاں سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ان کے ہم سب پر بہت احسانات ہیں.

جب انگریزوں کی ان تمام علاقوں پر گرفت مضبوط ہوئی تب انگریز حکومت نے پشاور علاقہ جات کیلئے ایک ڈپٹی کمشنر مقرر کیا اور یہ (FR) قبائلی علاقہ جات اس ڈپٹی کمشنر کے زیر نگرانی کر دیے. قبائلی علاقہ جات کیلئے ڈپٹی کمشنر بڈھ بیر کے مسمی شیخ محبوب علی مقرر ہوئے اور ڈپٹی کمشنر کی حثیت سے ان قبائلی علاقہ جات تیراہ (کلایہ) کے افسر اعلیٰ مقرر ہوئے. یہ تمام علاقے بمع تیراہ (کلایہ) ڈپٹی کمشنر شیخ محبوب علی کے زیر قیادت رہے.

 بمقام لیڑی کا پہلا فیصلہ جاتی خاکہ سن 1934ء

جب شیخ محبوب علی ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے تو انہوں نے 1934ء میں علاقہ تیراہ کا دورہ کیا اور تمام تر صورت حال سے دیکھنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہاں لیڑی کے مقام پر ایک بزرگ ہستی جناب سید میرانور شاہ اعلی الله مقامہ کا مزار اقدس ہے. چونکہ شیخ محبوب علی نے اپنے بڑوں سے ان کامل ہستی سید موصوف کے متعلق سنا تھا 

ziyarat badshah mir anwar syed

لہٰذا شیخ محبوب نے جرگے کو یہ ذمہ داری سونپی کہ فریقین (شیعہ و سنی) کے مابین دوستانہ راضی نامہ کرا دیں، مگر جرگہ نے کوئی فیصلہ نہ کیا. سن 1934ء میں ڈی سی شیخ محبوب علی نے فیصلہ کیا کہ فی الحال دریائے مستورے کے اس پار لیڑی کے کھیتوں کی کاشت اہلسنت کریں مگر یہاں کوئی آبادی نہ کریں، فقط اراضی بنجر ہونے سے بچنے کیلئے کاشت کریں. جب دریائے مستورے میں پانی زیادہ ہو تو شیعہ حضرات پار نہیں جا سکتے اور علاقہ کلایہ میں مکمل طور پر شیعہ حضرات رہیں کیونکہ سب سے پہلے یہاں سادات آباد ہیں اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا کہ زیارت جناب سید میرانور شاہ بزرگوار پر شیعہ قوم کے آنے پر کوئی پابندی نہیں اور ساتھ قبرستان پر فاتحہ خوانی کرنے والوں کیلئے مکمل آزادی ہے. 

DC Sheikh Mehbub Ali Faisla

یہ سلسلہ سن 1975ء تک جاری رہا، کسی بھی فریق کی طرف سے کوئی غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاروائی نہ ہوئی.

تحریر: مومن علی جلال (بڈاخیل)
سکنہ بغکی، کرم ایجنسی پاراچنار

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post