دوسرا فیصلہ 1975ء برائے تعمیر و مرمت مزارات

سن 1975ء میں صوبہ سرحد کے گورنر میجر جنرل (ر) نصیر الله خان نے خود علاقہ تیراہ کلایہ کا دورہ کیا، انہوں نے حالات کا تفصیلی جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ جناب سید میرانور شاہ بزرگوار کا گنبد نما زیارت/مزار جولائی سن 1806ء میں بحکم امیر کابل تعمیر ہوا ہے، دو سو سال پرانا مزار اب خستہ حال ہو چکا تھا.

Major General (Retd) Naseerullah Khan Babar

نصیر الله خان صاحب نے فوراً قوم کے مشران کو جمع کر کے پولٹیکل ایجنٹ کو حکم صادر کیا کہ جتنا جلدی ہو سکے زیارت مقدس کی تعمیر کا کام شروع کروا دیں اور ساتھ ہی نقشہ بھی تیار کرنے کا حکم دیا. انجینئر کے ذریعے زیارت کی بلڈنگ کا نقشہ تیار کر کے پولٹیکل ایجنٹ سے منظوری کے دستخط لے لئے گئے اور اے پی اے لوئر اورکزئی کے زیر نگرانی کام شروع کرنے کا حکم جاری کیا.

 

پولٹیکل ایجنٹ، اے پی اے لوئر اورکزئی اور فریقین کے مشران (اہلسنت اور اہل تشیع) نے فیصلہ پر زیارت کی تعمیر کرنے پر دستخط کیے. میٹریل جمع کرکے تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا گیا اور اہلسنت حضرات نے زیارت کی تعمیر کیلئے اچھا خاصا چندہ بھی دیا. زیارت کی تعمیر کا کام اے پی اے لوئر اورکزئی کی نگرانی میں شروع ہوا لیکن چونکہ تیراہ ایک ٹھنڈا علاقہ ہے سردی شروع ہوئی تو زیارت کی تعمیر کا کام روک دیا گیا. اس وقت پی اے اورکزئی کی تبدیلی ہوئی جس کی وجہ سے کام میں سستی پڑگئی اور بد قسمتی سے گورنر نصیر الله خان کی حکومت بھی ختم ہوگئی. مقامی انتظامیہ نے بھی زیارت کی دوبارہ تعمیر میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تو کام التوا کا شکار ہوگیا. لاکھوں روپے کا تعمیراتی میٹریل (بجری، سیمنٹ اور سریا) وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ضائع ہو گیا.

تیسرا فیصلہ سن 1998 - 99 برائے تعمیر زیارت

1998 - 99 میں نئی انتظامیہ آگئی چناچہ تیراہ سادات اور شیعہ اورکزئی قوم نے زیارت کی دوبارہ تعمیر شروع کروانے کیلئے درخواست کی. پی-اے اورکزئی نے مئی 1999 میں شیعہ اورکزئی اور سنی اورکزئی قوم کے مشران سے بات چیت کی اور جرگہ کے ذریعے شیعہ و سنی اورکزئی کے مابین زیارت میاں بزرگوار لیڑی دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا.

جرگہ مقرر ہوا، اسی جرگہ کے ذریعے تحریری راضی نامہ ہوا. 04 مئی 1999 میں جرگہ کے فیصلہ پڑ فریقین کے مشران نے دستخط کیے جو کہ اے-پی-اے اورکزئی اور پولٹیکل تحصیلدار لوئر اورکزئی نجات حسین نے اس پر تصدیق کر کے دستخط کے اور چند شرائط مقرر کیے کہ مذکورہ راضی نامہ کی خلاف ورزی کسی بھی فریق نے کی تو ان سے پچاس لاکھ روپے جرمانہ لیا جائے گا جو نصف بحق سرکار ہوگا اور نصف حقدار فریق کو ملے گا جبکہ مجرم فریق کو معاف نہیں کیا جائے گا. 

تحریر: مومن علی جلال (بڈاخیل)
سکنہ بغکی، کرم ایجنسی پاراچنار

alert-info یہ بھی پڑھیں لیڑی کا پہلا فیصلہ جاتی خاکہ

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post