لیڑی فیصلہ کے شرائط

 ١- قدیمی قبرستان لیڑی کی چار دیواری کے باہر کوئی تعمیرات نہیں کی جائے گی.

٢- چار دیواری کے اندر زیارت بادشاہ میرانور سید کی تعمیر از سر نو کی اجازت ہوگی، چاہے سونے سے کیوں نہ بنا دیں اور قدیمی قبرستان میں خستہ حال قبور کی مرمت کی جائے گی.

٣- زیارت کی تعمیر و مرمت و قبور اے-پی-اے اورکزئی کے وساطت سے کلایہ سادات کی نگرانی میں کی جائے گی.

راضی نامہ تحریر ہو کر دستخط کے بعد اے-پی-اے اورکزئی نے فریقین کے مشران اور کلایہ سادات کو پڑھایا تو فریقین (شیعہ و سنی) کے مشران کو اے-پی-اے اورکزئی بلا کر جناب ایم-این-اے سید منیر سید میاں پولٹیکل تحصیلدار لوئر اورکزئی اور کلایہ سادات کی موجودگی میں اے-پی-اے اورکزئی نے سنگ بنیاد رکھا. تب ایم-این-اے سید منیر سید میاں نے کلایہ اور کرم ایجنسی کے سادات اور شیعہ و سنی اورکزئی کے موجودگی میں خوشگوار ماحول میں زیارت کی تعمیر کا کام شروع کیا.

جب زیارت کے ارد گرد دیوار (ڈی-پی-سی) تک پہنچ گئی تو چند دن بعد غیر ملکی عناصر کے دباؤ پر خفیہ ہاتھوں نے زیارت کی تعمیر کے کام میں بے جا مداخلت کی کیونکہ لیڑی میں ایک مسجد کو طالبان نے مدرسہ میں تبدیل کیا تھا جب وہاں طالبان کا اثر و رسوخ ہوا تو زیارت کی تعمیر میں مداخلت کرنے لگے. اس وقت کے اے-پی-اے اورکزئی نے جناب ایم-این-اے سید منیر سید میاں کو اطلاع دی کہ ایک ہفتہ تک زیارت کی تعمیر کا کام بند کر دیں. جواب میں سید منیر میاں نے کہا کہ زیارت کا کام تو فریقین اور سرکاری اجازت پر ہو رہا ہے پھر کام میں رکاوٹ کس بنا پر ہے؟

سید منیر میاں نے کہا کہ تحریر شدہ راضی نامہ سرکار میں موجود ہے لہٰذا فیصلہ کے مطابق زیارت کی تعمیر کا کام جاری رہے گا. پولٹیکل ایجنٹ اورکزئی نے کرم ملیشاء (ایف سی) کے ایک پلاٹون نفری کو لیڑی میں تعینات کرکے زبردستی فیصلہ شدہ کام کو الجھا کر بند کروا دیا. جب ایک ہفتہ پورا ہوا تو جناب ایم-این-اے سید منیر میاں و دیگر کلایہ سادات نے اے-پی-اے اور پی-اے اورکزئی سے رابطہ کیا تو پی-اے اورکزئی نے کہا کہ آپ لوگ اہلسنت قوم کیساتھ بات چیت کریں کہ راضی نامہ کے مطابق زیارت بادشاہ میرانور سید بزرگوار کی تعمیر کا دوبارہ کام شروع کرنے دیں مگر بیرونی عناصر کے دباؤ کے تحت اورکزئی قوم اہلسنت حضرات نے زیارت کی دوبارہ تعمیر کے کام کا فیصلہ نہ کیا، البتہ زیارت جانے کیلئے اور فاتحہ خوانی کیلئے زائرین پر پابندی نہ تھی.

لیڑی فیصلہ کے شرائط

اس کے بعد جناب جنرل جمال سید میاں، ایم-این-اے سید منیر سید میاں، کلایہ سادات اور اورکزئی شیعہ قوم کے مشران نے سرحد کے گورنر سے ملاقات کی اور زیارت کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیا. گورنر سرحد نے وعدہ تو کیا مگر فیصلہ میں ٹال مٹول کرتے رہے لہٰذا تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا.

اس معاملے پر سرکاری جرگہ بھی مقرر ہوا جس میں کرم ایجنسی کے چند مشران اور اورکزئی کے مشران نے درمیان فیصلہ کرنے کیلئے تین مہینے کا تیگہ (کانڑے) رکھا کہ اس کانڑی تین ماہ کے اندر فیصلہ کریں گے کہ جتنا جلدی ہو سکے زیارت کی تعمیر کا کام شروع کریں مگر تین ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ کرایا گیا بلکہ مقررہ کانڑی (تیگہ) کا معیاد بھی ختم ہوگیا. 

تحریر: مومن علی جلال (بڈاخیل)
سکنہ بغکی، کرم ایجنسی پاراچنار

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Previous Post Next Post