راز !!
رُوحانیت میں لفظ (راز) بہت زیادہ استعمال میں آتا ہے. آخر یہ راز ہے کیا ؟؟
اِسکی اِہمیت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے ؟؟
قُرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِس راز کو علمِ لدُنی کہا گیا ہے. علمِ لدُنی کے بارے میں حضرتِ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ؛
میں نے اللہ سے اِس عِلم کے بارے میں پُوچھا تو اللہ پاک نے جواب دیا کہ یہ وہ راز ہے جو میرے اور میرے خاص بندے کے درمیان ہے اور کسی فرشتے کو اِس میں دخل نہیں ہے.
یعنی یہ وہ عِلم ہے جو بِنا جبرائیل کی وساطت کے اُترتا ہے یعنی ایسا عِلم بھی ہے جو وحی کے علاوہ ہے اور پروردیگارِ عالم براہِ راست اپنے بندوں کے دل پہ اُتارتا ہے.
حضرت سلطان باھوؒ کا فرمان ہے کہ؛
اہلِ راز ہی اہلِ معرفت ہیں
یعنی جو یہ راز جانتے ہیں اصل میں وہ معرفتِ خداوندی سے واقف ہیں.
اللہ پاک کے خاص بندوں کا مِل جانا ہی یا اُن کو پا لینا ہی اصل میں اللہ کے راز سے واقف ہو جانا ہوتا ہے.
رب مت ڈھونڈ، رہبر ڈھونڈ
کیونکہ اگر رہبر مل جائے گا تو وہ اللہ سے مِلوا دے گا. جب سب کچھ مُرشد سے ہی ملنا ہے، مُرشد ہی اللہ اور بندے کے سارے راز و نیاز کا مالک ہے تو پھر کیوں نہ مُرشد کو ہی سب کچھ سمجھا جائے اور مُرشد کے تصور کو اُس حد تک لیا جایا جائے کہ اُن کے سوا کچھ اور نظر ہی نہ آئے!
جناب قنبر علی خان بزرگوار فرماتے ہیں؛
په کمال به وراسم د خدائے په حکم
څه مُرید زه په یقین د کامل پیر یم
"الله کے حکم سے میں حدِ کمال کو پہنچ جاؤں گا کہ میں یقین کیساتھ کامل پیر (سید میرانور شاہ) کا مُرید ہوں"
کامل پیر دے انور شاه صاحب باور کڑه
زه قنبر علی یے ځکه دامنگیر یم
"یقین کرو انور شاہ صاحب کامل پیر ہیں اِس لئے میں اُن کا دامن گیر (دامن تھامے ہوئے) ہوں"
مالک سب کو اہلِ راز کامِل مُرشد کی بیعت نصیب فرمائے (آمین)
بہت خوب تحریر ہے محترم، جزاک اللہ خیر
ReplyDeletePost a Comment