16 جون سن 1999ء معتقدین سید میرانور شاہ اعلی اللہ مقامہ کیلئے ایک یاد گار دن، ایک مقدر ساز لمحہ، ایک درخشاں باب اور ایک پرعزم معرفانہ و صوفیانہ تحریک کی ابتداء کا دن ہوتا، مگر یہ ہو نہ سکا !!
درج بالا عبارت شاید کسی کو مبالغہ آرائی محسوس ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سید منیر حسین میاں سابقہ ایم این اے اورکزئی زیارت کی تعمیر میں کامیاب ہو جاتے اور وہ ناقابل بیان محرکات اس عمل کے دوران رکاوٹیں نہ بن پاتیں تو آج مریدین میاں بادشاہ کے متزلزل کمیونٹی کا نقشہ کچھ اور ہوتا زیارت کی خستہ حالی کیساتھ ساتھ مریدین میں سید بادشاہ کا حقیقی تفکر و نظریہ بھی خستہ حال محسوس ہوتا ہے۔ میاں بادشاہ کا درسِ وحدانیت، درسِ رسالت، روحِ ولایت، شریعت، معرفت اور دیگر اہم موضوعات جو کہ قربِ الہٰی کے موجب ہو سکتے ہیں، ان کی ترویج مکمل فراموش کردی گئی ہے۔
اب صرف ہماری زبانیں اُن کے نام تک محدود ہیں اور اُن کی حقیقی فکر سے ناآشنا اور ایک قابل افسوس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر زیارت کی تعمیر ہوتی تو وہ نظریہ بھی پروان چڑھتا لیکن ہماری بدبختی کہہ لیں کہ ہم اس علم کے نور سے فیضیاب نہ ہو سکے۔ اتنی بڑی کمیونٹی اپنی اصل مرکز کو بھلا کر چھوٹے کمزور یونٹس میں تقسیم نہ ہوتی، اگر 16 جون 1999 کو ہم کامیاب رہتے یعنی نفاق کا کیڑا ہمارے وجود کو کھوکھلا نہ کرتا تو آج حالت کچھ اور ہوتی اور یہ بھی عین حقیقت ھے کہ اولیاء اللہ اتحاد پر بہت زور دیتے ہیں نہ کہ نفاق کو پسند کرتے ہیں۔
څو څه زنگ د نفاق ورک له خاطر نه شید ایمان متاع به نه وڑے سلامتَ
Post a Comment