سید موصوف کا اسمِ گرامی میر سید عباس جان سید ہے، سپینو کڑو چیختان (حقیقت بولنے والا) اُنکا لقب ہے. اُن کے والد بزرگوار کا اسمِ گرامی سید حسن شاہ اعلیٰ الله مقامہ ہے جن کو سید حسن سید کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے- سید عباس جان سید کی ولادت باسعادت اورکزئی ایجنسی (تیراہ) کے گاؤں کلایہ میں ہوئی لیکن افسوس تاریخِ ولادت ہمیں معلوم نہ ہوسکی کیونکہ وقت کے یزیدوں نے کئی مرتبہ اُنکے گاؤں کلایہ کو جلایا ہے، تاریخ اور قیمتی کلام کا زیادہ تر حصہ نظر آتش ہوچکا ہے-

سید عباس جان سید کا شجرہ نسب کا سلسلہ اپنے اجداد سید حسینُ الاصغر جو کے امام محمّد باقر علیہ السلام کے بھائی تھے کے ذریعے امام زینُ العابدین علیہ السلام ابنِ امام حسین علیہ السلام ابنِ امام علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے- اپنے زمانے میں سید عباس سید نام تھا، انسانیت کا، شرافت کا اور سعادت کا- سید موصوف صاحبِ کرامات، خوبصورت اور خوب سیرت انسان تھے- زُہد و تقویٰ، دلیری اور جوانمردی اُنہیں وراثت میں ملی تھی، مخلوقِ خدا کیساتھ نیکی کرنا اُنکی زندگی کا شیوا تھا. انسان تو انسان، چرند -پرند بھی اُن کی اُنس و محبّت سے مستفید ہوتے تھے- ایسا کوئی نہیں تھا جو اُنکی بارگاہ میں آتا اور اُن سے فیض حاصل نہ کرتا
ٹائیفائڈ (میعادی بخار) سے بچوں کا مرنا!
صرف ایک واقعہ آپ تمام احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں! سن ١٩٧٠عیسوی میں، میں کرم ایجنسی کے گاؤں بالش خیل فاتحے کیلئے گیا تھا، بالش خیل گاؤں میں ندی کے کنارے ایک بڑا بید کا درخت دیکھا (جسے پشتو میں ولہ) کہتے ہیں. اُس درخت کے کچھ شاخیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور سوکھ چکی تھیں اور کچھ توڑے بہت سبز تھیں جن میں زندگی کے اثرات دکھائی دے رہے تھے. اُس درخت کی عمر مجھے کافی زیادہ معلوم دکھائی دی اور کیفیت بھی باقی بید کے درختوں سے جدا تھی. میں نے گاؤں کے ایک بزرگ سے پوچھا کہ اِس بید کے درخت کی شاخیں بہت سوکھ چکی ہیں، اِسکا مالک اِسے کیوں نہیں کاٹتا اور جلانے کیلئے گھر کیوں نہیں لے کے جاتا؟
جواب میں اُس بزرگ نے کہا کے میرے والد اور گاؤں کے باقی بزرگ بتاتے تھے کہ ایک دن سید عباس سید ہمارے گاؤں تشریف لائے تھے، گاؤں کے بزرگوں نے سید محترم سے التجا کی کہ ہمارے گاؤں میں بخار کا مرض یعنی ٹائیفائڈ (جسے میعادی بخار بھی کہتے ہیں) بہت زیادہ ہے اور بچے اُس بخار سے مر رہے ہیں ہمارے لئے دعا کریں کہ یہ مرض خدا ہم سے برطرف کر دے، یہ سن کے سید عباس جان اعلیٰ الله مقامہ بہت اداس ہوگئے اور فرمایا کہ اِس بید کے درخت کے پتوں کو پیس کر اِسکا کڑوا پانی مریضوں کو پلائیں، الله تعالیٰ شفا دینے والا ہے.
سید محترم کے کہنے کیمطابق ہم اپنے مریضوں کو اِس درخت کے پتوں کا کڑوا پانی پلاتے تھے اور الله اُنہیں شفا دیتا تھا چونکہ یہ درخت سید بزرگوار کے اُس واقعے کی یادگار ہے اِسلئے لوگ اِس درخت کا احترام کرتے ہیں اور اِسکے لکڑیوں کو جلانے کی جرات نہیں کرتے. سید موصوف ٧ ذی القعد بروز جمعہ ١٣٠٤ ھجری بمطابق ٢٩ جولائی ١٨٨٧ عیسوی اس دار فانی سے پردہ فرما گئے.
رقیبان بہ خپل مولا پہ لاس کے راکی
سرکردہ زہ د مہدی امام لخکر یم
Post a Comment