اولیاء کرام کی تین اقسام ہیں:-
- سالک
- مجذوب
- قلندر
یہ سب وِلایت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ایک مشترِک لفظ "ولی" اِن سب کیلئے بولا جاتا ہے۔ اِن کو ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے، اِن میں سے بعض ظاہری کام پر تعُینات ہوتے ہیں اور بعض کو صرف باطِنی کام کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔
سالِک !
راہ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنیوالا سالِک کِہلاتا ہے. یہ شرع پر کاربند رہتا ہے تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مُقام پر فائز ہوکر طریقت کو عام کرتا ہے اس کا مقام اِنتہائی اہم اور اعلیٰ ہے اِس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں یہ ہوش میں رِہ کر ہوشمندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے ان کا سلسلہ ہوتا ہے اور مُریدین ہوتے ہیں عوامُ الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت و طریقت کی مئے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے.
مجذوب !
اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ شریعت ہوشمند پر لاگو ہوتی ہے. یہ ظاہری اِعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے. مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مُریدین ہوتے ہیں. یہ اپنے باطِنی اسرار و رمُوز میں محو و مست رہتا ہے جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں.
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لیکر دوسرے کو دے دیتا ہے. اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا. ان کا ہر عمل ہر حرکت ہر ہر ادا مصلِحت سے بھرپور ہوتی ہے. ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے. بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا کسی کو گالی دے دے گا مگر ہر بات کسی مصلِحت کی بِنا پر ہوتی ہے.
قلندر !
یہ سالِک اور مجذوب دونوں کے مِزاج اور کیفیات کا حامِل ہوتا ہے۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہوجانا، دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا قلندریت کا حامِل کردیتا ہے۔ قلندر پر جذب غالِب ہوتو کیفیات اور ہوتی ہے ہوش غالِب ہوتو کیفیات اور ہوتی ہے۔ یہ کبھی با ہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے، دونوں طرح کی عطائیں اس پر ہوتی ہیں۔
قلندر کا ایک معنی دین اور دنیا سے آزاد بھی لیا جاتا ہے کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالِب آگئیں تو اہلِ ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سے آزاد ہے۔ قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہُمہ وقت تفکُر اور مراقبہ میں رہتا ہے. قلندر کو دُنیا کی وضع اور رسُوم کی پرواہ نہیں ہوتی، دل اس کا صاف اور سادہ ہوتا ہے آرزو اس کی یہ ہوتی ہے کہ اللہ سے تعلُق قائم کر کے باقی سب کو ترک کردیا جائے۔
تحریر: تعلیماتِ اولیاء الله
Post a Comment