آج کا موضوع "درویش" ہے، ویسے تو نامِ درویش کو ہمارے معاشرے میں کافی پذیرائی حاصل ہے اور تقریباً ہر شخص لفظِ درویش سے آشنا ہے، کسی نہ کسی سے یہ لفظ سنا ہے مگر حقیقت میں کون ہوتا ہے؟ طریقت میں درویش کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے؟ پہچان کیا ہے؟ یہ بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں.
لفظِ درویش دو الفاظ کا مجموعہ ہے دُر جس کی معنی ہے موتی اور ویش کا مطلب ہے بکھیرنا یعنی ایسی بات لکھنے والا، بتانے والا، نظر کرنے والا یا توجہ کرنے والا جس سے معرفت کے سچے موتی بکھر جائیں اور جہاں بکھریں وہاں صرف وہ معرفت ہی نہیں بلکہ معرفت کا گلستان آباد ہو جائے، اُسے درویش کہتے ہیں.
حضرت سلطان باھو رح فرماتے ہیں
درویش بن، درپیش نہ بن یعنی درویش کا کام ہے کہ وہ معرفت کے موتی کو طالب کے دل میں معنوی گلزار نچھاور کرے. لفظ درویش کے پانچ حروف ہیں: د، ر، و، ی، ش
"د" سے مراد یہ ہے کہ وہ قلب میں درد رکھتا ہو کیونکہ درد مندوں کے دل میں شوقِ الا الله کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے. عشق ایک آگ ہے اور اس کا مسلسل بھڑکنا ہی اس کی خاصیت ہے جیسے آگ کا وجود شعلے سے ہے اسی طرح درویش کا وجود عشق سے ہے. محبّت آتشِ عشق کا دھواں ہے اس لیے آتشِ عشق میں جلنے والے محبت کے پیامبر ہوتے ہیں اور شمع اپنی لو اس شوق میں برقرار رکھتی ہے کہ پروانے اس کے گرد جمع ہو.
"ر" سے مراد راستِ دین ہو یعنی دین پر چلنے والا ہو، دین کو صدقِ دل سے قبول کرنے والا ہو اور اہم چیز کہ وہ شریعت کا پیروکار ہو. جس بات کا شریعت حکم دے اُسے لازمی عمل میں لائے چاہے اُس کی جان لبوں پر کیوں نہ ہو اور جس چیز سے شریعت منع کرے فوراً رُک جائے چاہے کتنا ہی نفع کیوں نہ ہو. سخی سلطان باھو فرماتے ہیں:
"میں نے ہر مرتبہ شریعت پر عمل پیرا ہو کر حاصل کیا ہے اور اپنا پیشوا و راہبر شریعت کو بنایا ہے"
"و" سے مراد وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ہے یعنی درویش شِرک سے دور رہے اُس کے لئے وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ ہی کافی رہے اور وہ اُسکی وحدانیت میں ہی غرق رہے، شِرک کا اُس کو ہوش ہی نہ ہو وگرنہ جو اِس کے برعکس ہے وہ درویشی نہیں ہے، راہزنی ہے.
"ی" سے مراد ہے کہ یادِ حق کرنے والا ہو یعنی وہ اپنے دل و دماغ میں صرف ایک ہی سوچ اور یاد رکھتا ہو اور وہ ہے یادِ حق تعالیٰ لہٰذا جو دنیا کو بھی یاد رکھے اور دیگر نفسانی خواہشات میں محو اور مستغرق ہو وہ درویش نہیں ہوتا.
"ش" سے مراد یہ ہے کہ وہ نافرمودا خدا اور صاحبِ شریعت رسولِ خدا صلی الله علیہ والہ وسلم سے شرم کرنے والا ہو اُسے نبی مکرم علیھم السلام کی داڑھی مبارک کی حیا اور پاس ہو اور اُسے لوگوں سے ہاتھ چُموانا اور لوگوں کو مرید کرنے کا شوق نہ ہو کیونکہ جو اصل درویش ہوتا ہے وہ لوگوں کی عقیدت کا بھوکا نہیں ہوتا.
درویش کی پہچان !!
درویش کی پہچان دو صفات سے ہوتی ہے ایک یہ کہ وہ اہلِ توحید ہوتا ہے اور دوسرا وہ اہلِ معرفت ہوتا ہے اگر کوئی اس کی محفل میں آجائے تو وہ ایک ہی لمحہ میں اسے بھی معرفتِ الہی سے مشرف کر دیتا ہے، آنے والے کو الله تعالیٰ کی پہچان عطا کر دیتا ہے.
درویش ہر دور میں ہوتے ہیں اور تا قیامت آتے رہیں گے لیکن ان کے رہنے کا طریقہ دوسرے اہلِ طریقت سے مختلف ہوتا ہے یہ کبھی خود فروشی نہیں کرتے اور اپنے مرتبے کا کسی کو نہیں بتاتے اور اگر کسی کو پتا لگ بھی جائے کہ اس میں کچھ ہے یا یہ درویش ہے تو یہ اسے عام سا روحانی شخص ہونے کا بتاتے ہیں لہٰذا انہیں مکمل طورپر درویش وہی شخص جان سکتا ہے جو خود درویش ہو یا راہِ درویشی کا مسافر ہو وگرنہ یہ کبھی چپ کر اور کبھی خود کو عام سا مرشد بتا کر سلسلہ طریقت میں مصروف رہتے ہیں.
تحریر: علی اکبر سروری قادری
Post a Comment