جب طالبِ مولا (سالِک) تلاش حق کے سفر پر نکلتا ہے تو سب سے پہلا مرحلہ مرشدِ کاملِ اکمل کی تلاش ہوتا ہے. اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت اور اسکے قُرب و وِصال کی راہ چونکہ شریعت کے دروازے سے ہو کر گزرتی ہے اِسلیے شریعت کے دروازے کے دونوں طرف شیطان اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت طالبِ مولا کی گھات لگا کر بیٹھا ہے.
اول تو وہ کسی آدمزاد کو شریعت کے دروازے تک آنے ہی نہیں دیتا، اگر کوئی باہمت آدمی شریعت (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے تو شیطانی گروہ اُسے شریعت کی چوکھٹ پر روک رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اُسے شریعت کی ظاہری زیب و زینت کے نظاروں میں مِحو رکھتا ہے. وہ شریعت کی روح تک کسی کو نہیں پہنچنے دیتا اور آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جو لوگ شریعت پر کاربند ہیں وہ اُسکی روح تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے. اگر کوئی خوش قسمت طالب ِ مولا ہمت کر کے آگے بڑھتا ہے تو شیطان پہلے سے بھی زیادہ شِدت کیساتھ اُسے روکنے یا گمراہ کرنے کی جتن کرتا ہے اور اُسکی راہ مارنے کا ہر حربہ استعمال کرتا ہے.
طالبِ مولا جب شریعت کے دروازے سے گزر کر باطن کی نگری میں داخل ہوتا ہے تو اُسے رجوعاتِ خلق (خلقت اپنی دنیاوی مشکلات کے خاتمہ کیلئے اُسکی طرف رجوع کرتی ہے) کے نہایت ہی وسیع و دشوار گزار جنگل سے گزرنا پڑتا ہے. اِس موقع پر طالبِ مولا کو اگر کسی مرشدِ کاملِ اکمل کی رفاقت اور راہبری حاصل نہ ہو تو وہ رجوعاتِ خلق کے جنگل میں بھٹک کر باطنی طور پر ہلاک ہو جاتا ہے. جس طرح شریعت کا عِلم اُستاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اِسی طرح باطنی عِلم کا حصول مرشدِ کاملِ اکمل کی رفاقت کے بغیر ناممکن ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرشدِ کامل کی پہچان کیسے ہو جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابنِ عباس سے مروی ہے:
اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت آسان ہے لیکن ولیُ اللہ (مرشدِ کامل) کی حقیقت کی معرفت مشکل ہے اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمال و جمال کیوجہ سے معروف ہے لیکن ولیُ اللہ ایک مخلوق ہے اور مخلوق کو مخلوق کی معرفت مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ اُنہی کیطرح احکامِ شرع کی پابندی کرتا ہے لیکن اُسکا باطن اللہ کے ساتھ مشغول ہے اِس لیے اُسکی معرفت مشکل ہو جاتی ہے (تفسیر روح البیان)
حوالہ سلطان باہو پی کے
"اگر کسی کے دل میں مرشد کی مراد ہو (کامل مرشد کا حصول چاہتا ہو) تو سید کے بغیر کوئی رہبر نہیں پاسکتا"
"اگر کوئی میرانور کے قول پر یقین کرے حقیقت میں کامل کی نظر عنایت اکسیر اعظم ہے"
حوالہ کتاب صحیفہ انوریہ
Post a Comment