بلحاظ معنی اسم کی قسمیں !!
بلحاظ معنی اسم کی دو قسمیں ہیں:-
١- اسم نکرہ ٢- اسم معرفہ
١- اسم نکرہ:-
وہ اسم ہے، جو کسی خاص شخص، جگہ یا چیز کا نام نہ ہو. مثلاً سَړَئ (آدمی)، کَلَی (گاؤں)، کَانْړَئ (پتھر) وغیرہ.
یاد رکھیئے:-
١- اسم نکرہ کی جمع بن سکتی ہے. مثلاً کَلي (بہت سے گاؤں)، سَړي (بہت سے مرد) لیکن اسم معرفہ کی جمع نہیں بن سکتی، مثلاً پَیښَور (پشاور) سے پَیښَورونه نہیں بنا سکتے.
٢- اسم نکرہ کے ساتھ اگر حرف ندا مثلاً یہ، اے، وہ لگ جائے تو وہ اسم معرفہ کا کام دیتا ہے. مثلاً ھلک (لڑکا) اسم نکرہ ہے لیکن یہ ھلکہ (اے لڑکے) خاص لڑکے کی طرف اشارہ ہے.
٣- اگر کوئی اسم نکرہ کسی اسم معرفہ کے ساتھ بحثیت اسم مضاف استعمال ہو تو بھی اسم معرفہ کا کام دیتا ہے، مثال کے طور پر د ادم خان قصہ (آدم خان کی کہانی) د لنډي غاړه (دریائے لنڈی کا کنارہ) میں قصہ (کہانی) غاړه (کنارہ) اسمائے نکرہ ہیں لیکن بحثیت اسمائے مضاف اسماء معرفہ کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں اور خاص نام بن گئے ہیں.
alert-info یہ بھی پڑھیں: پشتو حروف تہجی
٢- اسم معرفہ:-
وہ اسم ہے جو کسی خاص شخص، جگہ یا چیز کا نام ہو. مثلاً احمد، کراچئ (کراچی) نمر (سورج) وغیرہ. اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں. ١- اسم علم یا اسم خاص ٢- اسم ضمیر ٣- اسم اشارہ ٤- اسم موصول.
١- اسم علم یا اسم خاص:- وہ اسم ہے جس سے کوئی خاص شخص، جگہ یا چیز مراد ہو. مثلاً حسنین، اکبر کراچی، لاہور اسماء خاص میں خصوصاً انسانوں کے نام آتے ہیں. علاوہ ازیں اسم علم کی پانچ قسمیں ہیں.
الف) تخلص: وہ نام جو شاعر اپنے اصل نام کے علاوہ کلام میں استعمال کرتا ہے. مثلاً اسد الله غالب، عبد الرحمٰن رحمان.
ب) خطاب: بادشاہ یا حاکم وقت یا کسی اور ذریعے سے عزت آفزائی کے طور پر بعض لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے جس سے ان کے رتبے کا پتا چلتا ہے. مثلاً ارباب، خان بہادر، ملک الشعراء وغیرہ.
ج) لقب: اسے اسم وصفی بھی کہتے ہیں. وہ نام جو خاص نام کے علاوہ کسی کو خاص صفت، عزت یا خصوصیت کی بنا پر پکارا جائے. مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم الله، حضرت امام علی علیہ السلام کو شیر خدا بھی کہتے ہیں. کلیم الله، شیر خدا لقب ہیں.
د) عرف: وہ نام ہے جو کسی کیلئے اس کے اصل نام کے علاوہ حقارت، الفت یا کسی اور وجہ سے پکارا جائے مثلاً عبد الشکور سے دل شکری، لال خان سے لالی، شینو نرے، سپینے وغیرہ.
ہ) کنیت: ازروئے ادب کسی کا اصلی نام چھوڑ کر اسے ماں باپ، بیٹا بیٹی کے نام سے نسبت دے کر پکارا جائے. مثلاً ابو حنیفہ (حنیفہ کا باپ)، د الماس پلار (الماس کا باپ)، ابن قاسم (قاسم کا بیٹا) وغیرہ.
نوٹ:- کنیت کا رواج دراصل عرب میں ہے. پشتو میں کنیت کا استعمال بہت کم ہے.
٢- اسم ضمیر:- اسے اسم کا قائم مقام بھی کہا جاتا ہے. دراصل یہ کسی شخص، جگہ یا چیز کے نام کی جگہ استعمال ہوتا ہے. جس نام کی جگہ استعمال ہو اسے مرجع کہتے ہیں. مثلاً د اسلم کتاب (اسلم کی کتاب) یا د هغه کتاب (اس کی کتاب) اسلم کی جگہ هغه (وہ) لگایا گیا ہے. اسلم مرجع اور هغه ضمیر ہے. عموماً اسم ضمیر کا استعمال اسم معرفہ یا نکرہ کی تکرار سے بچنے کیلئے کیا جاتا ہے. بلحاظ مرجع اسم ضمیر کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
الف) غائب: جو بوقت کلام موجود نہ ہو. مثلاً هغه (وہ) اس کی بھی دو قسمیں ہیں؛ واحد غائب اور جمع غائب- هغه (وہ اکیلا) هغوئ (وہ جمع).
ب) حاضر: جس سے یا جس کے سامنے بات کی جائے. مثلاً ته (تم)، دا (یہ)، دوئ (یہ سب). اس کی بھی دو قسمیں ہیں؛ واحد حاضر اور جمع حاضر.
ته (تم, تو, آپ) واحد حاضر ہے. تاسو (آپ سب، تم سب) جمع حاضر ہے.
دا (یہ) واحد حاضر ہے. دوئ (یہ سب) جمع حاضر ہے.
دی (یہ) واحد حاضر ہے. دوئ (یہ سب) جمع حاضر ہے.
دراصل دا، دی (یہ) دوئ (یہ سب) غائب قریب ہیں. یہ بوقت کلام تو موجود ہوتے ہیں لیکن متکلم ان سے مخاطب نہیں ہوتا بلکہ وہ باتیں کسی اور سے کرتا ہے.
ج) متکلم: خود بات کرنے والا متکلم کہلاتا ہے. اس کی بھی دو قسمیں ہیں. واحد متکلم اور جمع متکلم. مثلاً زہ (واحد) ہے اور مونږ (مونگ - ہم) جمع متکلم ہے.
alert-info مزید پڑھیں: اسم کیا ہے؟
بلحاظ لفظ اسم ضمیر کی دو قسمیں ہیں:-
الف) منفصل: وہ اسم ضمیر ہے جو دوسرے کلمے سے الگ ہو مثلاً زہ (میں)، ته (تم).
ب) متصل: وہ اسم ضمیر ہے جو دوسرے کلمے سے پیوست ہو. مثلاً خورم (میں کھاتا ہوں) میں م، وھے مې (مجھے مارتے ہو) میں مې وغیرہ.
اسم ضمیر کی مختلف حالتیں !!
الف) فاعلی حالت: منفصل ضمائر حالت فاعلی میں حسب ذیل طریقے سے استعمال ہوتے ہیں:
مفعول الیه: اس مفعول کی نشانی یہ ہے کہ مفعول کے آخر میں تہ یا لہ بڑھا دیتے ہیں.
مندرجہ بالا ضمائر مذکر مونث کیلئے یکساں استعمال ہوتے ہیں صرف ا) واحد غائب میں هغے لره/دپاره/لره ٢) واحد حاضر میں دے/لره/دپارہ مونث کیلئے استعمال ہوتے ہیں.
مفعولی حالت - متصل ضمائر
متصل مفعولی ضمائر کی نشانی ور، در اور را ہے. مثلاً
Post a Comment