History of Syed Mir Anwar Shah Mian - Kalaya

جناب سید میرانور شاہ اعلیٰ الله مقامہ کو دو سو سال سے اِن ناموں کیساتھ یاد کیا جارہا ہے. انور شاہ سید، شاہ انور سید، میاں بادشاہ، میرانور میاں اور میرانور شاہ. سید موصوف کا وہ نام جو اُن کے صفات و کمالات کیساتھ تعلق رکھتا ہے وہ "اویسُ القرن" ہے. اُن کے خاندان کو "میاں خاندان" اور اُن کے معتقدین اور مریدین کو "میاں مریدان" کہتے ہیں.

سید میرانور شاہ کا مختصر تعارف - History of Syed Mir Anwar Shah-mian

سید میر انور شاہ کے والد بزرگوار کا مقبرہ تیراہ (اورکزئی ایجنسی) کے ایک گاؤں کلایہ میں ہے اور اُن کے اجداد، سید میر عاقل شاہ اور سید میر کبیر دونوں بزرگوں کے مقبرے مستورے نہر کے اُس پار لیڑی کے مقام پر ہیں. سید میر عاقل شاہ اور اُنکی بہن کو دشمنوں نے نمازِ تہجُد کی حالت میں شہید کیا تھا. جناب سید میرانور شاہ کا مزار بھی لیڑی کے مقام پر آب و تاب کیساتھ چمک رہا ہے. سید میرانور شاہ کا شجرہ نسب سید حسینُ الاصغر ابنِ امام زینُ العابدین علیہ السلام کے ذریعے امام حسین علیہ السلام ابنِ امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام تک پہنچتا ہے. 

جناب سید میرانور شاہ بزرگوار کے روحانی وارثوں کا ذکر بھی اختصار کے ساتھ کرنا ضروری ہے. جناب سید مدد شاہ، حضرت میرانور شاہ سید کے فرزند تھے اُن کا لقب "مت شاہی" ہے، صفات و کمالات میں اپنے والد بزرگوار کے تصویر تھے. میاں مُرید اور ملنگ "یو مدد دے، سید مدد دے" کے نعروں سے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں. یہ نعرہ بہت معنی خیز ہے اِس میں سید مدد شاہ کے کمالات اور صفات کی طرف اشارہ ہے. جناب سید مدد شاہ بے اولاد تھے اُن کے والد بزرگوار جناب سید میر انور شاہ سید، الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کیا کرتے تھے، منت مانتے تھے، مفلسوں اور فقیروں کو نذر و نیاز دیتے تھے اور روزے رکھتے تھے اِسی طرح کئی سال گزر گئے لیکن اُنکی مراد پوری نہ ہوسکی. جناب سید میرانور شاہ ایک عارف اور کامل تھے. ایک رات مولا علی ابنِ موسیٰ رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا امام رؤوف گوہر افشاں فرمانے لگے کہ آپ نے بہت زیادہ دعائیں مانگی، منتیں مانی اور نذر و نیاز دی لیکن آپ کی مراد پوری نہ ہو سکی، آپ میرے پاس مشہد (ایران) آجائیں.

جب صبح ہوئی تو سید میرانور شاہ نے تیاری شروع کی سامانِ سفر باندھا زادِ راہ لیا اور تیراہ کے گاؤں کلایہ سے ننگرہار (افغانستان) کے راستے مشہد روانہ ہوئے. جب مشہد مقدس پہنچ گئے تو غسل کیا پاک و صاف لباس پہنا اور امام عالی مقام کی مقدس بارگاہ میں حاضری دینے کیلئے چل پڑے، حرم مطہر میں نہایت ادب و احترام کیساتھ داخل ہوگئے، کیا دیکھتے ہیں کہ امام علی ابنِ موسیٰ رضا علیہ السلام اپنی قبر مطہر کے اوپر تشریف فرما ہیں امام علیہ السلام نے سید میرانور شاہ بزرگوار کو خوش آمدید کہا سید بزرگوار نے اپنا سر امام کے قدموں میں رکھ دیا. امام علیہ السلام نے سید موصوف کو اٹھایا اور گلے سے لگایا کافی دیر تک اپنے مبارک سینے سے لگائے رکھا سید موصوف کو یہ عظیم شرف حاصل ہو گیا امام علیہ السلام نے سید موصوف کیساتھ راز و نیاز کی گفتگو کی امام رؤف نے بہت جود و سخا کا مظاہرہ کیا. اُن میں سے چند کا ذکر کیا جارہا ہے:- 

١- جناب سید میرانور شاہ ؒ  کو بیعت دی. سید موصوف کو زُہد، تقویٰ اور روحانی کیفیات کی بنا پر اپنا خاص نمائندہ مقرر کیا.

٢- سید موصوف کو یہ خوشخبری دی کہ خداۓ رحمان و رحیم آپ کو چھ پوتے دیگا جو بلند مرتبہ اور صاحبِ عزت ہونگے ہر ایک پوتے کا نام بھی بتا دیا، پانچ پوتوں کے کمالات و درجات اور اُنکی سیرت کے بارے میں امام علیہ السلام نے سید میرانور شاہ ؒ  کو اگاہ کیا. امام رضا علیہ السلام کے کہنے کے مطابق سید میرانور شاہ ؒ  کے پوتوں کے نام درج ذیل ہیں:-

سید میر انور شاہ بزرگوار کے فرزندان (میاں زامن)

میاں زامن - Mian Zaman


١
- سید احمد شاہ:- بڑے عالم و فاضل انسان تھے اپنے زمانے کے بہترین ناظمُ الامور تھے، لقب "امانتِ الہیہ" تھا.

٢- سید علی شاہ:- بڑے صاحبِ کرامت تھے سالک اور خدا رسیدہ تھے. بزرگی اور رعب داب کے مالک تھے ملنگوں اور درویشوں کے میر تھے، لقب "راجعُ الغائب" تھا.

٣- سید محمود شاہ:- مرشدِ کامل تھے بہت سے کرامات اُن سے صادر ہوئی ہیں جمال اور کمال کا مجموعہ تھے صاحبِ دید اور ملنگوں کے دلبر تھے، لقب "سیاحُ الغائب" تھا.

٤- سید حسن شاہ:- عالم باعمل اور عابد بے بدل تھے زُہد اور تقویٰ کی بہترین صفتوں کیساتھ موصوف تھے لقب "قطبُ الغائب" تھا.

٥- سید حسین شاہ:- فقر کی بہترین صفت کیساتھ مزین تھے صاحبِ جمال تھے سیاہ دلوں کے مصقلہ تھے لقب "ملنگ زنجیرپا" تھا.

٦- سید محمّد حسن شاہ:- کرامات کے مالک اور اعلیٰ پایہ کے منتظم تھے عابد، زاہد اور تقویٰ دار تھے لقب "داؤدِ دیوان" تھا.  ٣- امام عالی مقام نے سید میر انور شاہ ؒ  کو تبلیغِ دین کا حکم دیا اور کہا کہ آپ کا گھر لُوٹ لیا جاۓ گا اور خاندان بھی تباہ و برباد ہو جاۓ گا.

٤- آپ ؒ  کا سر تن سے جدا کر کے قریہ بہ قریہ پھیرایا جاۓ گا اور دشمن اُس پر جشن منائیں گے.

سید میرانور شاہ ؒ  کا خاندان عِلم اور عمل کیساتھ مزین تھا بہت سے باکمال افراد اُن میں پیدا ہوئے ہیں کئی بار اُن کے خاندان کو لُوٹا گیا ہے اور اُنہیں دربدر کیا ہے اُن کے گھر جل چکے ہیں نہ تو اُن کی تاریخِ پیدائش موجود ہے، نہ باقی کلام اور نہ ہی کتابیں. ایک مختاط اندازے کے مطابق سید میرانور شاہ ؒ  نے تقریباً سو سال کی عمر پائی تھی. سید بزرگوار کی تاریخِ وفات ١۵ رجبُ المرجب سن ١٢١٤ء ھجری بمطابق ١٣ دسمبر ١٧٩٩ ہے-

سید میرانور شاہ ؒ  کے زمانے میں آنے اور جانے کے وسائل بہت کم تھے سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پیدل یا گھوڑے اور خچر وغیرہ کے ذریعے سے ہوتا تھا. سید موصوف نے درویشانہ زندگی بسر کی ہے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے بہت نفرت کرتے تھے. سید موصوف نے افغانستان، ایران، عراق، کشمیر، پنجاب، دکن اور مالوہ کی سیر و سیاحت کی ہے اور کئی بار اُن مقامات کی طرف گئے ہیں چناچہ سید موصوف نے اپنے کلام میں ایک جگہ پر اِس طرح اظہار کیا ہے:-    

یوه شپه مے کربلا باندے گذرشه
ما په سترگو راڅرگند د جنت در شه

کربلا تا که زه عرش وایم ريختیا دے
خوبیاولے پکے سبط د مصطفیٰ دے

کربلا مرتبه اوگوره انوره
د گنبد قبه یے نور دے منوره

حوالہ کتاب: صحیفہ انوریہ


alert-info سید بادشاہ کے کلام صحیفہ انوریہ کا پی ڈی ایف

1 Comments

Post a Comment

Previous Post Next Post