شریعت طریقت حقیقت اور معرفت - Shariat Tariqat Haqiqat Marifat

موجودہ زمانے میں یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت الگ الگ چیزیں ہیں اور لوگ مختلف قسم کے تاویلات پیش کرتے ہیں جناب سید میر انور شاہ بزرگوار فرماتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں جیسا کہ کہا گیا ہے:-
شریعت طریقت حقیقت اور معرفت - Shariat Tariqat Haqiqat Marifat

شریعت طریقت یو دی 
حقیقت و معرفت نه دی سوا

شریعت اور طریقت ایک ہیں حقیقت اور معرفت اِس سے جدا نہیں
شریعت پوست است، طریقت گوشت است، حقیقت استخوان است، معرفت مغز است

 

کھال گوشت کی حفاظت کرتا ہے اگر کھال کو بیماری لگ جائے تو وہ بیماری گوشت کو لگتی ہے جبکہ کھال اور گوشت دونوں ہڈی کی حفاظت کرتے ہیں اور ہڈی مغز کی رکھوالی کرتی ہے. شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا ایک دوسرے کیساتھ گہرا ربط ہے اگر کوئی ربط توڑنے کا مظاہرہ کرے گا تو اُسکے خطرناک نتائج ثابت ہوں گے (صحیفہ انوریہ)

دینِ اِسلام اللہ تبارک و تعالیٰ  تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے جِسکے مختلف درجات ہیں. شریعت اُس کا ابتدائی درجہ ہے، طریقت، حقیقت اور معرفت درمیانی درجے ہیں اور فقر (وَحدت) اُسکی اِنتہا ہے اور اُسکی بنیاد عشق ہے. اگر بنیاد مضبوط نہیں ہوگی تو عمارت بھی پائیدار نہیں ہوگی اور اگر کوئی درجہ کم ہوگا تو بھی منزل تک پہنچنا مُشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔

خواجہ بندہ نواز ؒ فرماتے ہیں:-

عشقِ حقیقی کے پانچ درجے بیان کئے گئے ہیں: پہلا درجہ شریعت ہے جس میں جمال محبوب کی صفت سننا ہوتا ہے تاکہ شوق پیدا ہو، دوسرا درجہ طریقت ہے یعنی محبوب کی طلب کرنا اور محبوب کی راہ پر چلنا، تیسرا درجہ حقیقت یعنی ہمیشہ محبُوب کے خیال میں رہنا، چوتھا درجہ معرفت ہے یعنی اپنی مُراد کو مِحبُوب کی مُراد میں محو کردینا، پانچواں درجہ وَحدت ہے یعنی اپنے فانی وجُود کو ظاہِر میں اور باطِن میں بھی ختم کردینا اور حرفِ مِحبُوب ہی کو موجُودِ مُطلق جاننا. جب یہ پانچ مراتب پورے ہو جائیں تو کام ختم ہو جاتا ہے اور فقط مِحبُوب کا عِشق باقی رہتا ہے. عِشق اور معشُوق کی موج بحرِ عشق میں غرق ہوجاتی ہے.


کسی بزُرگ نے فرمایا ہے کہ وجُود دو عِشق کے درمیان ہے یعنی اوّل بھی عِشق ہوتا ہے اور آخربھی عِشق ہوتا ہے کیونکہ ہر وجُود جو موجُود ہے عِشق سے خالی نہیں ہوتا اور نہ عِشق کے بغیر قائم و باقی رہ سکتا ہے، پس اوّل وآخِر ظاہِر وباطِن جو کچھ ہے عِشق ہے (رومی کا پیامِ عِشق)

حضرت سَخی سُلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں:

اللہ سے مُحبت کرنے والے گُناہ اور بُرائی سے دور رہتے ہیں. خَشخاش کے دانے کے برابر مُحبتِ اِلٰہی تمام مسائل فِقہ کے عِلم کی فضِیلت اور ستر سال کی پارسائی اورعِبادت سے بہتر ہے کیونکہ محبّت سے بندہ ربُوبیت اور توحید کے رازِ اِلٰہی کا مِحرم ہوجاتا ہے جبکہ عِبادت اور عِلم سے تکبُر پیدا ہوتا ہے اور بندہ مُحبتِ اِلٰہی سے مِحرُوم ہو جاتا ہے (عینُ الفقر)

عام اِصطلاح میں قرآن و سُنت کے ظاہری اِحکام کو شریعت اور اُنکے باطِن کو طریقت کہتے ہیں. مِثال کے طورپر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کر لیا جائے اور طریقت کی طہارت یہ ہے کہ دِل کو تمام شیطانی ونفسانی بیماریوں سے پاک کر لیا جائے۔

اللہ تک پُہنچنے کے سفر میں جب طالِب اِبتدائی زینے پر قدم رکھتا ہے تو اُسے صِرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ خُدا ہے لیکن وہ اُسکی ذات اور صِفات سے قطعی طورپر لا عِلم ہوتا ہے، پھر وہ ظاہِری عِبادات کے ذریعے اُسکی صِفات کے مُتعلق جاننا شروع کرتا ہے. جب طالِب شریعت پر ذوق اور شوق سے عمل کرکے ترقی کرتے ہوئے مقامِ طرِیقت پر پُہنچتا ہے تو اُس میں اُسکو بے حد حسین ذات کے قُرب اور دیدار کی طلَب پیدا ہوتی ہے اور وہ اُسکی جانِب بے اِختیار بڑھتا ہے. آگے بڑھتے بڑھتے یہ مقام آتا ہے کہ طالِب بظاہِر اِس دُنیا میں ہوتا ہے لیکن باطِن میں ہر وقت محبُوبِ حقیقی کی یاد میں مَگن رہتا ہے جِس کی وجہ سے باقی خیالات اور تَصاویر دُھندلی ہونے لگتی ہیں اور مِحبُوب کی تصویر واضِح ہونے لگتی ہے.

سید عبدُالکریم بِن اِبراہیم ؒ کہتے ہیں:-

عبادت اُس چیز کا نام ہے کہ بندہ طلَبِ جزا کیلئے اعمالِ خیر کو بجا لائے اور عبُودیت یہ ہے کہ اعمالِ خیر مِحض اللہ کیلئے بجا لائے جائیں. اُن میں جزا حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہ ہو بلکہ اعمال خالص اللہ کیلئے ہو اور عبُودت (عبُودیت سے آگے کا مقام ہے جب طالِب میں ذاتِ حق کے سوا کچھ بھی نہ بچے) اللہ کے ساتھ عمل کرنے سے مُراد ہے. اِسلیے مقامِ عبُودت جمیع مقامات کا محافظ ہے. (انسانِ کامل)


اِس لِحاظ سے شرِیعت کے نیک اعمال عِبادت ہے (اگر اِخلاص سے کیے جائیں) طرِیقت کے اعمال عبُودِیت ہیں اور فقر اور حقیقت کے اعمال عبُودَت ہیں. شریعت کی عِبادت ٹھیک طرح ادا نہ کرنیوالا کبھی حقیقت کی عِبادت تک نہیں پُہنچ سکتا اور حقیقت تک پہنچے بغیر اللہ کی عِبادت کامِل طورپر نہیں کی جاسکتی. شریعت بُنیاد ہے، طریقت سِیڑھی ہے اور حقیقت تکمیلِ مَراحل و درجات ہے. اِسی بنا پر حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حدیثِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:-
شریعت درخت (کی مِثل) ہے، طریقت اُسکی شاخیں ہیں، معرفت اُسکے پتے ہیں اور حقیقت اُسکا پھل ہے (سرِّالاسرار)
کوئی بھی طالِب یہ تمام مقامات صِرف اپنی عِبادت اور رِیاضت کے بل بُوتے پر طے نہیں کر سکتا بلکہ اُسکے لیے مُرشدِ کاملِ اکمل کا وسیلہ بے حد ضروری ہے. اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ کسی مُرشدِ کامل کے بغیر یہ تمام منازل اور مقامات عبُور کرسکتا ہے تو وہ شیطان کے فریب میں مُبتلا اور گُمراہی کا شِکار ہے. 

جنابِ سُلطان باھُو فرماتے ہیں؛

طالِب کو چار مُرشِدوں کیطرف رُجوع کرنا چاہیئے، مُرشدِ شریعت، مُرشدِ طریقت، مُرشدِ حقیقت اور مُرشدِ معرفت. مُرشدِ شریعت کون ہے؟؟ جو طالِب کو اِسلام کے بُنیادی ارکان کلمہ، نماز، روزہ، حج، مال کی زکوٰۃ وغیره کی حقیقت سمجھا دے. مُرشدِ طریقت کون ہے؟؟ جو طالِب کی گردن میں اللہ کی بندگی کا طوق ڈال کر دونوں جِہانوں سے بے نیاز کردے. مُرشدِ حقیقت کون ہے؟؟ جو طالِب کو جانباز بنا کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جان لینا سیکھا دے. مُرشدِ معرفت کون ہے؟؟ جو طالِب کو اللہ تعالیٰ کے اسرار کا رازدان بناکر صاحبِ سِرّ بنا دے. جو مُرشِد طالبِ مولیٰ کو اِن مقامات تک نہیں پہنچاتا وہ جھوٹا اور دغا باز ہے (عینُ الفقر)

 جو عِبادت، رِیاضت اور چِلہ کشی اللہ کی معرفت اور قُرب و وِصال کیطرف نہ لے جائے وہ گُمراہی اور دھوکہ ہے؛-

جب تُو کسی ایسے فقیر کو دیکھے جو زُہد و تقویٰ، رِیاضت، چِلہ کشی اور عِبادات میں تو بہت محنت کرتا ہے مگر باطِن سے بے خبر ہے تو سمجھ لو کہ وہ گُمراہی کے بیابان میں بھٹک رہا ہے۔ اُسکی عاقبت دھوکہ بازُوں جیسی ہے (عینُ الفقر)

ایک اور مقام پر سُلطان باھُو فرماتے ہیں؛-

عالِم، فاضِل، قاضی، مُفتی، حاکِم اور بادشاہ شرِیعت کیمطابق ہزارُوں لوگوں کی تفتیش کرتے ہیں لیکن ساری عُمر اپنے نفس کی تفتیش ایک بار بھی نہیں کرتے لیکن فُقرا دن رات اپنے نفس کی تفتیش اور مُحاسبہ کرتے رہتے ہیں. اُس تفتیش کے دوران عِشق کا قاضی حُکم دیتا ہے کہ نفس کو قتل کر دیا جائے. مُحبت کا مُفتی کہتا ہے کہ نفس کی گردن اُڑا دی جائے. ذِکر و فِکر کا حاکِم حُکم دیتا ہے کہ نفس کو اللہ تعالیٰ کے اِخلاص کی زنجِیروں میں قید کر دیا جائے اور شریعتِ محمدیؐ کی مُتابعت کا طوق اُسکی گردن میں ڈالنے کا اِشارہ دیتا ہے. مجھے اُن لوگوں پر تعجُب ہے جو دوسروں کے نفس کی تفتیش کر کے اُنہیں قید کے عذاب میں ڈالتے ہیں لیکن اپنے نفس کو بغیرتفتیش کئے بگاڑ دیتے ہیں. حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے؛-

میری اُمت پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرے گا جب وہ قرآن بھی پڑھیں گے اور مسجِدوں میں نِمازیں بھی ادا کریں گے لیکن اُنکے دِلوں میں ایمان نہ ہوگا

سُن! زیادہ نیکیاں کرنا اور زیادہ عِلم حاصل کرنا فرض نہیں ہے البتہ عِلم حاصل کر کے اُس پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا فرض ہے، زیادہ عبادات کرنا بھی فرض نہیں ہے. پارسائی اور عِلم اُسکے پاس ہے جو خُود کو گناہوں سے بچاتا ہے جو کہ (اصل) فرض ہے. اگر کوئی شخص ساری رات نِماز پڑھتا ہے اور ہر دن روزہ رکھتا ہے لیکن گناہوں سے باز نہیں آتا تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ گناہوں کو پسند کرتا ہے اور اُسکی عبادات اُسے کوئی فائدہ نہیں دے رہی، پس معلُوم ہوا کہ طالبِ دُنیا اُستاد سے عِلم نہیں سیکھنا چاہیے، روایت ہے فِیْ صُحْبَۃِ تَاثِیْرٌ (صُحبت کی تاثیر ہوتی ہے) (عینُ الفقر)

اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کیلیے اور اللہ کا قُرب و وِصال پانے کیلیے شرِیعت، طرِیقت، حقِیقت اور معرِفت کی تمام منازِل کو طے کرنا ضروری ہے. کسی ایک مقام پر ٹِھہر جانا نقصان دہ ہے جس طرح پانی اگر ایک جگہ ٹِھہر جائے تو گندا اور بدبُودار ہو جاتا ہے اِسی طرح رُوح بھی اگر کسی ایک مقام پر رُک جائے تو نفس اور شیطان کے شِکنجے میں پھنس جاتی ہے.

سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں؛-

کیا تُجھے معلوم ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو کس بات سے افتخار حاصل ہے؟؟ وہ یہ کہ وہ ہر وقت معرفتِ مولیٰ میں غرق رہتے ہیں پس انبیاء اور اولیاء سے کسی کا مرتبہ افضل نہیں کہ وہ ہر کسی سے برتر و اعلیٰ ہیں (محک الفقر کلاں)

اِن سب منازِل کو طے کرنے کیلیے کسی ہادی، رہنما اور مُرشد کی ضرورت ہوتی ہے جو اِس راہ کے تمام مقامات سے واقف ہو اور اِس دوران آنیوالی تمام رُکاوٹوں کو عبوُر کرنا اور تمام حِجابات کو دور کرنا جانتا ہو بغیر مُرشد کے انسان نہ شریعت کے احکام کو ٹھیک سے سمجھ کر اُسکی روح کیمطابق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی طریقت، حقیقت و معرفت کی ہوا تک پہنچ سکتا ہے جیسا کہ سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں؛-

صاحبِ نظر ناظر اور صاحبِ وصال مُرشدِ کامل ہر وقت حضُورِ حق میں حاضر رہتا ہے اور اُسے اِس قدر قوت و قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ہزار کوس کے فاصلے سے اپنے طالِب کو جذبِ قلب کے ذریعے اپنے پاس حاضر کر لیتا ہے اور اُسے ایک ہی نظر میں مقامِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت طے کر ا کے حضورِ حق میں پہنچا دیتا ہے اور طالبِ اللہ ہمیشہ کیلیے راہِ حق پر گامزن ہو جاتا ہے. یہ وہ راہ ہے جسے صاحبِ نظر و صاحبِ وصال مُرشد اور منظورِ نظر طالبِ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا (محک الفقر کلاں)

سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں؛-

شبِ معراج حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام بُراق پر سوار ہوئے، جبرائیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے آگے پاپیادہ دوڑے، عرش سے فرش تک دونوں جہان آراستہ کیے گئے، اٹھارہ ہزار عالَمین کو پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا اور جبرائیل ؑ آگے بڑھنے سے رُک گئے. اِس سارے اِہتمام کے باوجود حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نگاہ ذاتِ حق سے نہ ہٹائی، چُنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:-  

مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَاطَغَیٰ  (بہکی نہیں آپ کی نگاہ نہ حد سے بڑھی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس تمام اِہتمام پر توجہ نہیں دی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃُ المُنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتبِ سُلطان الفقر کی لذت سے لُطف اندوز ہوئے، فقر نورِ الٰہی سے باطِن کو معموُر فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے قُرب و وِصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے، پھر اُس سے آگے بڑھ کر مقامِ فقر فنا فی اللہ میں داخل ہوئے، ملاقاتِ فقر سے غرق فنا فی اللہ مع اللہ ذات ہو کر رفیقِ فقر ہوئے اور محبت، معرفت، عشق، شوق، ذوق، عِلم، حِلم، جود و کرم اور خُلق سے متخلق ہوئے. اِس طرح کمالِ فقر پر پہنچ کر جب سارا دریائے توحید آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جمع ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زبانِ دُرّفشاں سے اِس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا؛-  

فقر میرا فخر ہے اور فقر مُجھ سے ہے (محک الفقر کلاں) 

آپؒ فرماتے ہیں:- علمِ شریعت ایک شرف ہے، طریقت ایک حرف ہے جس میں مشاہده حق ہے اور معرفت مرتبہ حقُ الیقین ہے. شریعت دارُالسلطنتِ شاہ ہے، طرِیقت کو شرِیعت ہی سے راه ہے، حقیقت کی طرِیقت ہی سے حق پرنِگاہ ہے اور معرِفت بَراہِ حقیقت مِحرم سِر اَسرارِ اِلٰہ ہے جو آدمی شرِیعت کے دائرے سے باہر قَدم رکھتا ہے وہ اِستدراج کا شِکار ہوجاتا ہے، یہ سَراسر گُناہ ہے کیونکہ باطِن کا ہر راستہ اور ہر مقام شرِیعت ہی سے نِکلتا ہے اور شرِیعت ہی میں واپس آتا ہے جیسا کہ حَدیث شرِیف میں آیا ہے کہ؛-

اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرَّجُوْعُ اِلَی الْبِدَ ایَۃِ: انتہا ابتدا کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے

شرِیعت کا شرَف قُرآن سے ہے اور قُرآن کا شرَف اِسمِ اللہ ہے کوئی بھی چیز شرِیعت اور قُرآن و اِسمِ اللہ سے باہر نہیں.

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں؛-

جان لے کہ شریعت قال ہے، طریقت افعال ہے، حقیقت احوال ہے اور معرفت وِصال ہے. شریعت اور طریقت کے درمیان غیر ماسویٰ اللہ کے ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جن میں سب سے بڑا حِجاب وہ عِلم ہے جو کبرو ہوا کا سر چشمہ ہے. اِنسان جب تک اَنانیت اور کبر و ہوا سے پاک نہیں ہوجاتا مقامِ طرِیقت تک نہیں پُہنچ سکتا۔ اِسی طرح طرِیقت اور حقیقت کے درمیان بھی کشَف و کرامات کے ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جب تک انسان کشَف و کرامات سے دست بردار نہیں ہوجاتا حقیقتِ حق تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا. حقیقت اور معرفت کے درمیان ستر ہزار صفاتی حِجاباتِ اکبر ہیں. جب تک عارف عارفیتِ لباس معرفت سے جان نہیں چھڑا لیتا ہر گز مقامِ غرقِ نور اللہ میں نہیں پہنچ سکتا. مقامِ غرقِ نور اللہ اور مقام حیُّ قیوم بقا بِاللہ کے درمیان ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جب تک انسان اپنے جسم کو اسمِ اللہ کے تصور و تصرف میں غرق نہیں کردیتا ہرگز بقا بِاللہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حیاتِ دو جہان سے سرفراز ہو سکتا ہے کہ اُس مقام کو نعمتِ اِلٰہیہ کا مقام کہا گیا ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ؛- 

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ: اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا اِنعام نازل ہوا (محک الفقر کلاں)


طالبِ مولا کی راہنُمائی کرتے ہوئے سُلطان باهو ؒ  فرماتے ہیں؛-

جب طالبِ مولا مقامِ شرِیعت پر ہو تو اُس کیلیے شرائط یہ ہیں کہ شیطان کے شر کے خلاف چلے، معرفت کا حُکم دے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے شرم کرے، حلال کھائے، سچ بولے، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے اِجتناب کرے، علمِ دانش حاصل کرے، اپنے اِردگرد فرض، واجب، سُنت اور مُستحب کے چار حِصار قائم کرے اور اُس قلعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ کی توفیق کو اپنا ساتھی بنا کر عبادت کرے. جب وہ ترَقی کر کے مقامِ طرِیقت پر پُہنچ جائے تو اُس کیلیے شرطِ شطاری(یعنی تیز رَفتاری) ہے. جس طرح شہباز کی پرواز، کہ اِدھر اُڑا اور اُدھر اپنے مطلوب کو حاصل کرلیا. مقامِ حقیقت میں شرطِ دِلداری ہے. اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں جو کچھ ہو رہا ہے اُسی کیطرف سے ہے. اے میرے دوست!! دم نہ مار کہ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ (خیر اور شر اللہ ہی کیطرف سے ہے) اللہ کی مخلوق کیلیے خیر محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور شر شیطان ہے، تُو کس کی خواہش رکھتا ہے؟؟ مقامِ معرفت میں غم خواری ہے. معرفت کی شرط یہ ہے کہ جو جتنا عارف ہوتا ہے اُتنا ہی عاجز ہوتا ہے. جو آدمی اِن چاروں مقامات کی حقیقت نہیں جانتا وہ بیل اور گدھے کی مثل ہے اور فقرا کے سلک سلوکِ تصوف سے بے خبر ہے (عینُ الفقر)

جان لیں کہ ہر مقام پر قبض، بسط اور سکر کے احوال ہوتے ہیں. مقامِ طرِیقت میں سکرات (باطِنی ) موت کا خطرہ بھی ہے. اللہ ہمیں ناگہانی موت سے پناہ دے. مبتدی، متوسط اور منتہی طالِب کو چاہیے کہ جیسے ہی طریقت میں قدم رکھے تو اپنے تمام احوال کو سمجھ لے اور اپنی حفاظت کرے. جب اُس پر مستی چھانے لگے تو درُود شریف پڑھنا شروع کر دے تاکہ سلامتی پر رہ سکے. شریعت سانس کی طرح ہے اور طریقت قدم کی طرح ہے، قدم اُس وقت اُٹھایا جاتا ہے جب سفر کی نیت بن جائے. طریقت راستہ طے کرنے کے طریقے کو بھی کہتے ہیں، راستے میں پانی اور غذا کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ جان لبُوں پر آجاتی ہے. شریعت کشتی کی طرح ہے اور طریقت ایسے دریا کی طرح ہے جو ہر وقت طوفانِ نوح کی حالت میں رہتا ہے اور اُسکی موجیں ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں. ایسے وقت میں دستگیر مُرشد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہوا کی مثل ہوتا ہے اور طوفانی موجُوں کی مستی سے کشتی کو ڈوبنے اور خراب ہونے سے بچائے رکھتا ہے (عینُ الفقر)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں؛-

طالب کو مقامِ طریقت سے گزرنے میں چالیس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے لیکن اگر مُرشد کاملِ اکمل ہو تو طریقت کے تمام احوال سے نِکال کر ایک ہی پل میں مقامِ حَقیقت کی منزِل تک پُہنچا دیتا ہے. مقامِ حقیقت میں ادب لازم ہے طالِب ہر وقت اللہ کو حاضر و ناظر اور قریب جانتا ہے جس سے اُسے نیک عادات اور جمعیت حاصل ہوتی ہے. اُسکے بعد اللہ کے فضل و کرم سے جتنے بھی مقامات پیش آتے ہیں اللہ اُنہیں کھولتا جاتا ہے اور طالِب کسی کا محتاج نہیں رہتا. اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس (عینُ الفقر)

حوالہ جات کتب:-
صحیفہ انوریہ- تصنیف سید میرانور شاہ ؒ 
سِرّ الاسرار۔ تصنیف شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ  
عینُ الفقر۔ تصنیف حضرت سخی سلطان باھُو ؒ 

alert-successیہ قیمتی تحریر دوسروں کیساتھ لازمی شیئر کریں

4 Comments

  1. السلام علیکم محترم! بہت ہی عمدہ تحریر ہے الله اجر دے آپکو

    ReplyDelete
  2. بس اسی طرح پوسٹ کرتے رہے گا

    ReplyDelete
  3. Masha Allah boht ala post hai bhai jaan khush rahein or ilam baantThy rahiye AjrukumElallah

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ
    بہت خوب کوشش کریں کہ فارسی کتب جو کہ ایرانی خانقاہ سے شائع ہوتے ہیں ان میں بھی اعلیٰ تحریریں موجود ہیں۔ ان کو بھی موضوعات کا حصہ بنائیں۔ شکریہ

    ReplyDelete

Post a Comment

Previous Post Next Post