شریعت طریقت یو دی حقیقت و معرفت نه دی سوا
شریعت پوست است، طریقت گوشت است، حقیقت استخوان است، معرفت مغز است
خواجہ بندہ نواز ؒ فرماتے ہیں:-
حضرت سَخی سُلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں:
سید عبدُالکریم بِن اِبراہیم ؒ کہتے ہیں:-
شریعت درخت (کی مِثل) ہے، طریقت اُسکی شاخیں ہیں، معرفت اُسکے پتے ہیں اور حقیقت اُسکا پھل ہے (سرِّالاسرار)
جنابِ سُلطان باھُو فرماتے ہیں؛
جو عِبادت، رِیاضت اور چِلہ کشی اللہ کی معرفت اور قُرب و وِصال کیطرف نہ لے جائے وہ گُمراہی اور دھوکہ ہے؛-
جب تُو کسی ایسے فقیر کو دیکھے جو زُہد و تقویٰ، رِیاضت، چِلہ کشی اور عِبادات میں تو بہت محنت کرتا ہے مگر باطِن سے بے خبر ہے تو سمجھ لو کہ وہ گُمراہی کے بیابان میں بھٹک رہا ہے۔ اُسکی عاقبت دھوکہ بازُوں جیسی ہے (عینُ الفقر)
ایک اور مقام پر سُلطان باھُو فرماتے ہیں؛-
عالِم، فاضِل، قاضی، مُفتی، حاکِم اور بادشاہ شرِیعت کیمطابق ہزارُوں لوگوں کی تفتیش کرتے ہیں لیکن ساری عُمر اپنے نفس کی تفتیش ایک بار بھی نہیں کرتے لیکن فُقرا دن رات اپنے نفس کی تفتیش اور مُحاسبہ کرتے رہتے ہیں. اُس تفتیش کے دوران عِشق کا قاضی حُکم دیتا ہے کہ نفس کو قتل کر دیا جائے. مُحبت کا مُفتی کہتا ہے کہ نفس کی گردن اُڑا دی جائے. ذِکر و فِکر کا حاکِم حُکم دیتا ہے کہ نفس کو اللہ تعالیٰ کے اِخلاص کی زنجِیروں میں قید کر دیا جائے اور شریعتِ محمدیؐ کی مُتابعت کا طوق اُسکی گردن میں ڈالنے کا اِشارہ دیتا ہے. مجھے اُن لوگوں پر تعجُب ہے جو دوسروں کے نفس کی تفتیش کر کے اُنہیں قید کے عذاب میں ڈالتے ہیں لیکن اپنے نفس کو بغیرتفتیش کئے بگاڑ دیتے ہیں. حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے؛-
میری اُمت پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرے گا جب وہ قرآن بھی پڑھیں گے اور مسجِدوں میں نِمازیں بھی ادا کریں گے لیکن اُنکے دِلوں میں ایمان نہ ہوگا
سُن! زیادہ نیکیاں کرنا اور زیادہ عِلم حاصل کرنا فرض نہیں ہے البتہ عِلم حاصل کر کے اُس پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا فرض ہے، زیادہ عبادات کرنا بھی فرض نہیں ہے. پارسائی اور عِلم اُسکے پاس ہے جو خُود کو گناہوں سے بچاتا ہے جو کہ (اصل) فرض ہے. اگر کوئی شخص ساری رات نِماز پڑھتا ہے اور ہر دن روزہ رکھتا ہے لیکن گناہوں سے باز نہیں آتا تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ گناہوں کو پسند کرتا ہے اور اُسکی عبادات اُسے کوئی فائدہ نہیں دے رہی، پس معلُوم ہوا کہ طالبِ دُنیا اُستاد سے عِلم نہیں سیکھنا چاہیے، روایت ہے فِیْ صُحْبَۃِ تَاثِیْرٌ (صُحبت کی تاثیر ہوتی ہے) (عینُ الفقر)
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کیلیے اور اللہ کا قُرب و وِصال پانے کیلیے شرِیعت، طرِیقت، حقِیقت اور معرِفت کی تمام منازِل کو طے کرنا ضروری ہے. کسی ایک مقام پر ٹِھہر جانا نقصان دہ ہے جس طرح پانی اگر ایک جگہ ٹِھہر جائے تو گندا اور بدبُودار ہو جاتا ہے اِسی طرح رُوح بھی اگر کسی ایک مقام پر رُک جائے تو نفس اور شیطان کے شِکنجے میں پھنس جاتی ہے.
سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں؛-
کیا تُجھے معلوم ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو کس بات سے افتخار حاصل ہے؟؟ وہ یہ کہ وہ ہر وقت معرفتِ مولیٰ میں غرق رہتے ہیں پس انبیاء اور اولیاء سے کسی کا مرتبہ افضل نہیں کہ وہ ہر کسی سے برتر و اعلیٰ ہیں (محک الفقر کلاں)
اِن سب منازِل کو طے کرنے کیلیے کسی ہادی، رہنما اور مُرشد کی ضرورت ہوتی ہے جو اِس راہ کے تمام مقامات سے واقف ہو اور اِس دوران آنیوالی تمام رُکاوٹوں کو عبوُر کرنا اور تمام حِجابات کو دور کرنا جانتا ہو بغیر مُرشد کے انسان نہ شریعت کے احکام کو ٹھیک سے سمجھ کر اُسکی روح کیمطابق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی طریقت، حقیقت و معرفت کی ہوا تک پہنچ سکتا ہے جیسا کہ سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں؛-
صاحبِ نظر ناظر اور صاحبِ وصال مُرشدِ کامل ہر وقت حضُورِ حق میں حاضر رہتا ہے اور اُسے اِس قدر قوت و قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ہزار کوس کے فاصلے سے اپنے طالِب کو جذبِ قلب کے ذریعے اپنے پاس حاضر کر لیتا ہے اور اُسے ایک ہی نظر میں مقامِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت طے کر ا کے حضورِ حق میں پہنچا دیتا ہے اور طالبِ اللہ ہمیشہ کیلیے راہِ حق پر گامزن ہو جاتا ہے. یہ وہ راہ ہے جسے صاحبِ نظر و صاحبِ وصال مُرشد اور منظورِ نظر طالبِ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا (محک الفقر کلاں)
سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں؛-
شبِ معراج حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام بُراق پر سوار ہوئے، جبرائیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے آگے پاپیادہ دوڑے، عرش سے فرش تک دونوں جہان آراستہ کیے گئے، اٹھارہ ہزار عالَمین کو پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا اور جبرائیل ؑ آگے بڑھنے سے رُک گئے. اِس سارے اِہتمام کے باوجود حضُور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نگاہ ذاتِ حق سے نہ ہٹائی، چُنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:-
مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَاطَغَیٰ (بہکی نہیں آپ کی نگاہ نہ حد سے بڑھی)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس تمام اِہتمام پر توجہ نہیں دی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃُ المُنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتبِ سُلطان الفقر کی لذت سے لُطف اندوز ہوئے، فقر نورِ الٰہی سے باطِن کو معموُر فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے قُرب و وِصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے، پھر اُس سے آگے بڑھ کر مقامِ فقر فنا فی اللہ میں داخل ہوئے، ملاقاتِ فقر سے غرق فنا فی اللہ مع اللہ ذات ہو کر رفیقِ فقر ہوئے اور محبت، معرفت، عشق، شوق، ذوق، عِلم، حِلم، جود و کرم اور خُلق سے متخلق ہوئے. اِس طرح کمالِ فقر پر پہنچ کر جب سارا دریائے توحید آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جمع ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زبانِ دُرّفشاں سے اِس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا؛-
فقر میرا فخر ہے اور فقر مُجھ سے ہے (محک الفقر کلاں)
آپؒ فرماتے ہیں:- علمِ شریعت ایک شرف ہے، طریقت ایک حرف ہے جس میں مشاہده حق ہے اور معرفت مرتبہ حقُ الیقین ہے. شریعت دارُالسلطنتِ شاہ ہے، طرِیقت کو شرِیعت ہی سے راه ہے، حقیقت کی طرِیقت ہی سے حق پرنِگاہ ہے اور معرِفت بَراہِ حقیقت مِحرم سِر اَسرارِ اِلٰہ ہے جو آدمی شرِیعت کے دائرے سے باہر قَدم رکھتا ہے وہ اِستدراج کا شِکار ہوجاتا ہے، یہ سَراسر گُناہ ہے کیونکہ باطِن کا ہر راستہ اور ہر مقام شرِیعت ہی سے نِکلتا ہے اور شرِیعت ہی میں واپس آتا ہے جیسا کہ حَدیث شرِیف میں آیا ہے کہ؛-
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرَّجُوْعُ اِلَی الْبِدَ ایَۃِ: انتہا ابتدا کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے
شرِیعت کا شرَف قُرآن سے ہے اور قُرآن کا شرَف اِسمِ اللہ ہے کوئی بھی چیز شرِیعت اور قُرآن و اِسمِ اللہ سے باہر نہیں.
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں؛-
جان لے کہ شریعت قال ہے، طریقت افعال ہے، حقیقت احوال ہے اور معرفت وِصال ہے. شریعت اور طریقت کے درمیان غیر ماسویٰ اللہ کے ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جن میں سب سے بڑا حِجاب وہ عِلم ہے جو کبرو ہوا کا سر چشمہ ہے. اِنسان جب تک اَنانیت اور کبر و ہوا سے پاک نہیں ہوجاتا مقامِ طرِیقت تک نہیں پُہنچ سکتا۔ اِسی طرح طرِیقت اور حقیقت کے درمیان بھی کشَف و کرامات کے ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جب تک انسان کشَف و کرامات سے دست بردار نہیں ہوجاتا حقیقتِ حق تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا. حقیقت اور معرفت کے درمیان ستر ہزار صفاتی حِجاباتِ اکبر ہیں. جب تک عارف عارفیتِ لباس معرفت سے جان نہیں چھڑا لیتا ہر گز مقامِ غرقِ نور اللہ میں نہیں پہنچ سکتا. مقامِ غرقِ نور اللہ اور مقام حیُّ قیوم بقا بِاللہ کے درمیان ستر ہزار حِجاباتِ اکبر ہیں جب تک انسان اپنے جسم کو اسمِ اللہ کے تصور و تصرف میں غرق نہیں کردیتا ہرگز بقا بِاللہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حیاتِ دو جہان سے سرفراز ہو سکتا ہے کہ اُس مقام کو نعمتِ اِلٰہیہ کا مقام کہا گیا ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ؛-
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ: اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا اِنعام نازل ہوا (محک الفقر کلاں)
طالبِ مولا کی راہنُمائی کرتے ہوئے سُلطان باهو ؒ فرماتے ہیں؛-
جب طالبِ مولا مقامِ شرِیعت پر ہو تو اُس کیلیے شرائط یہ ہیں کہ شیطان کے شر کے خلاف چلے، معرفت کا حُکم دے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے شرم کرے، حلال کھائے، سچ بولے، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے اِجتناب کرے، علمِ دانش حاصل کرے، اپنے اِردگرد فرض، واجب، سُنت اور مُستحب کے چار حِصار قائم کرے اور اُس قلعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ کی توفیق کو اپنا ساتھی بنا کر عبادت کرے. جب وہ ترَقی کر کے مقامِ طرِیقت پر پُہنچ جائے تو اُس کیلیے شرطِ شطاری(یعنی تیز رَفتاری) ہے. جس طرح شہباز کی پرواز، کہ اِدھر اُڑا اور اُدھر اپنے مطلوب کو حاصل کرلیا. مقامِ حقیقت میں شرطِ دِلداری ہے. اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں جو کچھ ہو رہا ہے اُسی کیطرف سے ہے. اے میرے دوست!! دم نہ مار کہ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ (خیر اور شر اللہ ہی کیطرف سے ہے) اللہ کی مخلوق کیلیے خیر محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور شر شیطان ہے، تُو کس کی خواہش رکھتا ہے؟؟ مقامِ معرفت میں غم خواری ہے. معرفت کی شرط یہ ہے کہ جو جتنا عارف ہوتا ہے اُتنا ہی عاجز ہوتا ہے. جو آدمی اِن چاروں مقامات کی حقیقت نہیں جانتا وہ بیل اور گدھے کی مثل ہے اور فقرا کے سلک سلوکِ تصوف سے بے خبر ہے (عینُ الفقر)
جان لیں کہ ہر مقام پر قبض، بسط اور سکر کے احوال ہوتے ہیں. مقامِ طرِیقت میں سکرات (باطِنی ) موت کا خطرہ بھی ہے. اللہ ہمیں ناگہانی موت سے پناہ دے. مبتدی، متوسط اور منتہی طالِب کو چاہیے کہ جیسے ہی طریقت میں قدم رکھے تو اپنے تمام احوال کو سمجھ لے اور اپنی حفاظت کرے. جب اُس پر مستی چھانے لگے تو درُود شریف پڑھنا شروع کر دے تاکہ سلامتی پر رہ سکے. شریعت سانس کی طرح ہے اور طریقت قدم کی طرح ہے، قدم اُس وقت اُٹھایا جاتا ہے جب سفر کی نیت بن جائے. طریقت راستہ طے کرنے کے طریقے کو بھی کہتے ہیں، راستے میں پانی اور غذا کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ جان لبُوں پر آجاتی ہے. شریعت کشتی کی طرح ہے اور طریقت ایسے دریا کی طرح ہے جو ہر وقت طوفانِ نوح کی حالت میں رہتا ہے اور اُسکی موجیں ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں. ایسے وقت میں دستگیر مُرشد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہوا کی مثل ہوتا ہے اور طوفانی موجُوں کی مستی سے کشتی کو ڈوبنے اور خراب ہونے سے بچائے رکھتا ہے (عینُ الفقر)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں؛-
طالب کو مقامِ طریقت سے گزرنے میں چالیس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے لیکن اگر مُرشد کاملِ اکمل ہو تو طریقت کے تمام احوال سے نِکال کر ایک ہی پل میں مقامِ حَقیقت کی منزِل تک پُہنچا دیتا ہے. مقامِ حقیقت میں ادب لازم ہے طالِب ہر وقت اللہ کو حاضر و ناظر اور قریب جانتا ہے جس سے اُسے نیک عادات اور جمعیت حاصل ہوتی ہے. اُسکے بعد اللہ کے فضل و کرم سے جتنے بھی مقامات پیش آتے ہیں اللہ اُنہیں کھولتا جاتا ہے اور طالِب کسی کا محتاج نہیں رہتا. اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس (عینُ الفقر)
السلام علیکم محترم! بہت ہی عمدہ تحریر ہے الله اجر دے آپکو
ReplyDeleteبس اسی طرح پوسٹ کرتے رہے گا
ReplyDeleteMasha Allah boht ala post hai bhai jaan khush rahein or ilam baantThy rahiye AjrukumElallah
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDeleteبہت خوب کوشش کریں کہ فارسی کتب جو کہ ایرانی خانقاہ سے شائع ہوتے ہیں ان میں بھی اعلیٰ تحریریں موجود ہیں۔ ان کو بھی موضوعات کا حصہ بنائیں۔ شکریہ
Post a Comment